پنجاب حکومت نے TLP پر پابندی کے لیے کیا الزامات لگائے ہیں؟

وزیراعلی مریم نواز کی پنجاب حکومت نے وفاقی وزارت داخلہ کو تحریک لبیک پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی لگانے کی سفارش کرتے ہوئے واضح طور پر بتایا ہے کہ اس کی بنیاد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے ردعمل میں رکھی گئی تھی، وفاق کو بتایا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ یہ شدت پسند تنظیم مسلسل ریاستی رِٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ایک پرتشدد قوت میں تبدیل ہو چکی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کی تشکیل 2016 میں ممتاز قادری کی پھانسی کے فوراً بعد ہوئی۔ بعد ازاں، الیکشن کمیشن کی جانب سے "رسول اللہ” کے لفظ پر اعتراض کے بعد اسے تحریک لبیک پاکستان کے نام سے رجسٹر کیا گیا۔ تنظیم کے بانی خادم حسین رضوی نے سابق گورنر پنجاب سلمان سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو "شہید” قرار دیا اور فیض آباد کے قریب ان کا مزار تعمیر کروایا، جو تنظیم کے ابتدائی اجتماعات اور دھرنوں کا مرکز بنا۔
تحریک لبیک پاکستان کا بنیادی بیانیہ توہینِ رسالت کے قانون کے تحفظ پر مبنی ہے لیکن اس کے کرتا دھرتا اس بیانیے کو لوگوں کو بلیک میل کرنے، انسانی کی زمینوں پر قبضے کرنے اور بھتہ وصول کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تنظیم نے اپنی تشکیل کے بعد بریلوی مکتبِ فکر کے عوامی جذبات کو منظم سیاسی دباؤ میں تبدیل کیا اور ریاستی اداروں کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی کی راہ اپنائی۔ ٹی ایل پی نے جلد ہی ایک پریشر گروپ کی صورت اختیار کر لی جو اپنے جائز اور ناجائز مطالبات منوانے کے لیے سڑکیں بند کرتا، دھرنے دیتا اور حکومتوں کو بلیک میل کرتا رہا۔
پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو جو سمری بھیجی ہے اس کے ساتھ محکمہ داخلہ پنجاب کی ایک رپورٹ بھی منسلک ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک نے ملک میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا اور اس کے کارکنان بے قصور افراد پر توہینِ رسالت کے الزامات لگا کر عوامی جذبات کو بھڑکانے میں ملوث پائے گئے ہیں جن میں سے کئی کو تو جان سے مار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی عوامی سلامتی، قومی املاک، اور انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ رپورٹ میں تحریک لبیک کی تشدد پسند کارروائیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ 2017 کے فیض آباد دھرنے کو ایک اہم موڑ قرار دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ تنظیم کے کارکنان نے اشتعال انگیز تقاریر کیں، پولیس اہلکاروں پر حملے کیے، اور دارالحکومت کو کئی دنوں تک مفلوج رکھا۔ اس دھرنے کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ، تحریک لبیک نے مختلف مواقع پر سڑکیں بند کر کے عوامی زندگی کو مفلوج کیا، جس سے نہ صرف شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔ تنظیم نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومتوں کو بارہا بلیک میل کیا، اور ریاستی اداروں کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی کی راہ اپنائی۔
رپورٹ میں تحریک لبیک کی جانب سے سوشل میڈیا کے منظم استعمال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تحریک لبیک کے رہنما اور کارکنان اشتعال انگیز مواد، گرافک ویڈیوز، اور فرقہ وارانہ بیانات کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ یہ مواد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھیلایا جاتا ہے تاکہ مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے اور عوام کو سڑکوں پر لایا جا سکے۔
اسٹیبلشمینٹ تحریک لبیک پر پابندی کیوں لگانے جا رہی ہے؟
یاد رہے کہ تحریک لبیک نے 2018 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور قومی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی۔ اس نے مختلف مواقع پر فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف مظاہرے کیے، اور فرانس کی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان مظاہروں کے دوران بھی پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جن میں متعدد افراد مارے گے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے وفاق کو بھیجی گئی سفارش میں کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک کو محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک منظم اور عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکے خلاف فیصلہ کن قانونی کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ داخلی استحکام اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مؤثر تدارک کیا جا سکے۔
