پاکستان سے باہر رہنے والے یوتھیے کونسی منافقت کرتے ہیں؟

 

 

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار روف کلاسرا نے کہا ہے کہ ہم لوگ پاکستان سے باہر آئیں تو پاکستانی بھائیوں کے بہت سے گلے شکوے سننے پڑتے ہیں خصوصا یوتھیوں کے۔ ملک میں کوئی بھی حکمران ہو‘ ان کو برا ہی لگتا ہے اور جیل میں بیٹھا ہر سیاستدان انہیں اچھا لگتا ہے۔ وہی سیاستدان اگر جیل سے نکل کر وزیراعظم ہاؤس پہنچ جائے تو چند ماہ بعد انہیں وہ بھی برا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔

 

روف کلاسرا اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ میں رپورٹر ہونے کے ناتے ایسے تجربات کا عینی شاہد ہوں کہ کیسے نواز شریف 1997 میں دو تہائی مینڈیٹ لیکر امیر المومنین کا قانون لانے پر غور کر رہے تھے‘ جس میں کسی بندے کے پاس ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہونی تھی۔ اُن دنوں سب قوتیں ان کے خلاف تھیں۔ بہت سارے جمہوریت پسند طبقے ان کی اس سوچ کے خلاف تھے۔ لیکن جب مشرف کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں تو نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچے تو ان کے ناقدین اُن کی مظلومیت کی کہانیاں سن کر آنکھوں میں آنسو لایا کرتے تھے۔

 

روف کلاسرا کے بقول یہی میں نے عمران خان کے کیس میں بھی دیکھا۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو عوام کی بڑی تعداد اُن سے متنفر تھی۔ میں اپنے گائوں ایک شادی پر گیا تو لوگ میرے گلے پڑ گئے کہ تم نے عمران خان کی حکومت پر ہاتھ کیوں ہولا رکھا ہوا ہے۔ عمران کی بطور وزیراعظم مقبولیت کا یہ حال تھا کہ ان کے اپنے دور حکومت میں انکی جماعت 18 ضمنی الیکشن ہار گئی تھے۔ لیکن اب اسی عمران خان کی یاد میں یوتھیے غم سے نڈھال ہیں۔ میری بھی بڑی خواہش ہے کہ خان واپس آئے اور اس قوم کے رہے سہے ارمان پورے کرے۔ جس شخص کی چوائس عثمان بزدار‘ محمود خان‘ علی امین گنڈاپور اور سہیل آفریدی جیسے فضول لوگ ہوں اس کا پانچ سال وزیراعظم اور پانچ سال جیل میں رہنا بنتا ہے۔

 

روف کلاسرا کہتے ہیں کہ جب وہ خان دور حکومت میں ملک سے باہر جاتے تھے تو لوگ خان سے مایوسی کا اظہار کرتے تھے کیونکہ انہیں ان سے بہت ذیادہ امیدیں تھیں جو عثمان بزدار‘ خاور مانیکا اور گجر خاندان کے اثر ورسوخ نے توڑ ڈالیں۔ لیکن اب وہی عوام موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت مخالف پاکستانی جن ملکوں میں رہتے ہیں خان نے ان تمام ملکوں سے ٹکر لے رکھی تھی۔ میں آج تک اس انسانی ذہن کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس ملک میں آپ ہجرت کر کے سیٹل ہوتے ہیں‘ بچے پیدا کرتے ہیں‘ وہیں سے روزی روٹی کماتے کھاتے ہیں، اس سے نفرت کیسے ہو جاتی ہے اور وہ بھی اتنی ذیادہ کہ بعض لوگ تو ان ملکوں کی بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔

 

کلاسرا کے بقول بیرون ملک مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کی حالت بہت بُری ہے اور اسی لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر سیٹل ہو رہے ہیں۔ میں نے غور سے ان صاحب کو دیکھا اور کہا: کیا آپ واقعی سیریس ہو کر یہ بات کر رہے ہیں کہ باہر سیٹل ہونے سے ملک یا معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں؟ وہ بولا: جی۔ میں نے کہا: آپ یہاں نیویارک میں پاکستان سے کب شفٹ ہوئے تھے؟ کہنے لگے: بیس سال سے زائد ہو گیا۔ میں نے کہا: اس کا مطلب ہے کہ جب آپ نے خود امیگریشن لی تو وہ اچھی تھی اب دوسرے لے رہے ہیں تو بری ہو گئی‘ بلکہ اب آپ پاکستان کے خلاف کیس بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں۔

 

کلاسرا بتاتے ہیں کہ جواب میں موصوف کہنے لگے: لیکن اب تو برین ڈرین ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: کہ پھر آپ واپس لوٹ آئیں اور جو کچھ یہاں رہ کر سیکھا ہے وہ اب اپنے ملک اور قوم کے کام میں لائیں۔ وہ بولے: اب اس عمر میں کیسے آ سکتا ہوں۔ میں نے کہا: چلیں اپنے بچے واپس پاکستان بھیج دیں۔ کچھ برین ڈرین امریکہ کا بھی ہو۔ اس پر موصوف بولے کہ اب بچے کہاں پاکستان جائیں گے۔ میں نے کہا: نہ آپ خود پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو بھیجنا چاہتے ہیں لیکن اگر وہاں سے نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ وہ وہیں رہ کر ملک کی خدمت کریں۔ آپ خود باہر آ گئے‘ اپنی زندگیاں بدل لیں لیکن اگر کسی اور کو بیرون ملک زندگی بدلنے کا موقع مل جائے تو ہم رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

 

Back to top button