ڈیڈ لائن کے بعد پاکستان میں غیر قانونی افغانوں کا مستقبل تاریک

وفاقی حکومت نے بارہا دی گئی ڈیڈ لائنز کے باوجود وطن واپس نہ جانے والے افغان مہاجرین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اُن کے نام پر موجود گھر، گاڑی اور دیگر جائیداد کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت اب پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہری نہ تو اپنے نام پر کوئی جائیداد، مکان یا گاڑی خرید سکیں گے، اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اُن کے زیرِ ملکیت املاک خریدنے کی اجازت ہو گی۔حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین پر اس حوالے سے سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی، جبکہ دوسرے مرحلے میں رجسٹرڈ مہاجرین سے بھی زمینوں، جائیداوں اور قیمتی املاک کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ ذرائع کے بقول اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں قیام پذیز افغان مہاجرین کی جانب سے خریدی گئی پراپرٹیز اور گاڑیوں کا ڈیٹا پہلے ہی مرتب کر لیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، ہزاروں افغان شہری ڈیڈ لائنز گزر جانے کے باوجود نہ صرف پاکستان میں موجود ہیں بلکہ ان میں سے کئی افغانوں نے اپنے نام پر کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں، کاروبار اور گاڑیاں بھی خرید رکھی ہیں۔بے دخلی کے احکامات کے باوجود افغان مہاجرین کی ایسی سرگرمیاں نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ ذرائع کے بقول حکومت کی جانب سے اب افغان مہاجرین کی ملکیتی جائیدادوں کی خریدوفروخت پر پابندی اس لئے عائد کی جارہی ہے کہ افغان مہاجرین حکومتی ڈیڈ لائنز کے باوجود نہ صرف مختلف اضلاع میں مقیم ہیں بلکہ کاروبار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لئے حکومت نے اب سخت ترین اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاک افغان بارڈرز مکمل طور پر کھل جانے کے بعد جو افغان مہاجرین واپس نہیں جائیں گے، ان سے نہ کوئی جائیداد خرید سکے گا اور نہ ہی وہ کسی سے کاروباری لین دین کر سکیں گے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد بلاتفریق کارروائیوں کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں اس حوالے سے جہاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے حکام نے وفاقی حکومت کی پالیسی پر لبیک کہا ہے وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی نہ صرف وفاقی حکومت کی افغانستان بارے پالیسی کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا حکومت غیر قانونی افغانوں کی مکمل سہولتکاری کرتی بھی نظر آتی ہے۔
واضح رہے کہ افغان شہریوں کی وطن واپسی کی حکومتی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود متعدد خاندان تاحال روپوش ہیں اور افغانستان واپس جانے سے انکاری ہیں۔ جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس وقت افغان خاندانوں کی واپسی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مقامی افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے ابھی تک متعلقہ ادارے اپنے مشن میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔مبصرین کامزید کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے وہیں دوسری جانب وفاق کے برعکس صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت افغانوں کو بے دخل کرنے کے معاملے میں کسی قدر تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کا دشوار گزار پہاڑی سرحدی علاقہ، ملک میں عسکری گروہوں کی سرگرمیاں اور فرقہ وارانہ لڑائیاں مرکزی حکومت کی غیرملکیوں بالخصوص افغانوں کو نکالنے کی مہم کے لیے چیلنج بن رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کیلئے افغانوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا ناممکن ہے کیونکہ وہ سرحدی باڑ نصب ہونے کے باوجود غیرقانونی راستوں یا نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر کئی گاؤں ایسے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ہیں۔ اور گزشتہ تین چار دہائیوں سے انھیں راستوں سے دونوں ممالک کے باشندے مسلسل آر پار آ جا رہے ہیں۔‘
