خیبر پختون خواہ میں گورنر راج کے نفاذ سے کیا نقصانات ہوں گے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی علی گنڈا پور کی جانب سے آئے روز وفاق پر جتھے کی قیادت کرتے ہوئے چڑھائی کے باوجود صوبے میں گورنر راج کے نفاذ سے مسائل حل ہونے کی بجائے ان میں مزید اضافہ ہو گا لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فوج اور حکومت کو فیصلوں سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تنگ آ کر کے پی میں گورنر راج لگا دیں تاکہ اسلام آباد پرچڑھائیاں تو بند ہوں۔ مگر بہتر یہی ہو گا کہ ایسا کرنے کی بجائے پختونخوا حکومت کے ساتھ کوئی ورکنگ ریلیشن شپ بنایا جائے۔ طوفان گزر جائے، آندھی کا زور کم ہو جائے یا سیلاب اُتر جائے تو فوری ردعمل بچی کھچی چیزوں کو سنبھالنے اور نقصان کو ٹھیک کرنے کا ہوتا ہے۔ 26 نومبر گزر چکا اب جو بچا ہے اس کو بچانا اور جو ضائع ہوگیا ہے اسے مرمت و اصلاح سے بحال کرنا چاہیے۔ مزید ٹوٹ پھوٹ، مزید انتشار ، مزید لڑائی، مزید جلسے جلوس اور دھرنے اب بند ہونے چاہئیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے بارے منصوبے ختم کر دینے چاہئیں۔ دوسری طرف علی امین گنڈا پور کو بھی صوبے کی حکومتی مشینری کے ہمراہ آئے روز وفاق پر چڑھائی کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ وفاق اور فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اگر دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کا ارادہ کیا گیا اور پھر سے جتھے لا کر دارالحکومت کو تاراج کرنے کے بارے میں سوچا بھی گیا تو یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پختونخوا میں گورنر راج نافذ کر دیا جائیگا۔ مگر اس ناچیز کی رائے اسکے برعکس ہے پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے ایسے میں صوبے کی ایک مقبول جماعت سے اقتدار چھیننے سے حالات مزید ابتر ہو جائینگے۔ چنانچہ گنڈا پور اور وفاق میں انڈرسٹینڈنگ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

سینئیر صحافی کہتے ہیں کہ گنڈا پور کھلے عام اور نجی محفلوں میں بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں جو خان نے کہنا ہے وہ انہوں نے کر کے ہی رہنا ہے، کسی کو جا کر خان کو بھی سمجھانا چاہیے کہ پنجاب میں بھی تو آپ کا بہت ووٹ بینک ہے، وہاں مرکزی پنجاب میں تو ایک بندہ بھی باہر نہیں نکلا، ایک جلوس بھی نظر نہیں آیا۔ کراچی میں بھی آپ کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہوتا تھا، وہاں سے بھی ایک قافلہ تک نہیں آیا۔ 26 نومبر کو بھی ورکرز کی بھاری اکثریت خیبر پختونخوا سے اسلا آباد آئی جس کی واحد وجہ وہاں آپکی صوبائی حکومت کا ہونا ہی تو تھا، اگر صوبائی حکومت جاتی رہی تو پی ٹی آئی کا پختونخوا میں وہی حال ہوگا جو پنجاب اور کراچی میں ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے ایک مضبوط قلعے کی مانند ہوتی ہے، لہٰذا تحریک انصاف کو کسی بھی صورت اپنی صوبائی حکومت کو تڑوانے کے حالات پیدا نہیں کرنےچاہئیں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ کسی بھی احتجاج، دھرنے یا جلوس کیلئےتین اہم ترین عناصر تنظیم، وسائل اور قیادت ہوتے ہیں۔ پنجاب اور کراچی میں تحریک انصاف کے حامی تو بہت ہیں لیکن وہاں نہ ان کی تنظیم ہے نہ وسائل اور نہ ہی قیادت۔ پختونخوا میں پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے تنظیم اور ڈسپلن قائم ہے، احتجاج کے لیے ہزاروں افراد اکٹھے کرنا آسان نہیں ہوتا، ڈپٹی کمشنر، پولیس آفیسر اور بالخصوص ایم این اے، ایم پی اے سارے اکٹھے ہو کر کام نہ کریں تو اتنا اجتماع اکٹھا نہیں ہوسکتا۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کہاں سے آئے؟ کرایہ کون دے؟ ان سب لوگوں کے کھانے کا انتظام کون کرے؟ یہ سب صوبائی حکومت ہی کر رہی ہے، اسی لئے یہ جلوس کامیاب ہو جاتے ہیں۔ صوبائی حکومت کے پیسے استعمال نہ ہوں، حکومتی وسائل کام نہ آئیں تو یہ مجمع کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتا ، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔

انکے مطابق سب سے اہم چیز قیادت ہوتی ہے۔ پنجاب کی قیادت یا تو چھپی ہوئی ہے یا پھرخوف زدہ ہے۔ کراچی کا بھی برا حال ہے۔ علی امین گنڈا پور کبھی طاقت کے ایوانوں میں صفائیاں پیش کرتا ہے اور کبھی اڈیالہ جیل جا کر اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتا ہے، اس ڈبل گیم کی وجہ سے وہ ابھی تک اپنا اقتدار بچائے ہوئے ہے۔ اور اُس کی اسی عیاری کی وجہ سے پی ٹی آئی کا بھرم اور صوبائی حکومت قائم ہے وگرنہ اوپر نیچے کے فیصلے ایسے آ رہے ہیں کہ فوج اور حکومت پختونخوا میں انتہائی اقدام کر ہی ڈالے۔ گورنر راج کے نفاذ کا فیصلہ حکومت، فوج اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کیلئے بھی اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ گنڈا پور وفادار ہے یا غدار، مشکوک ہے یا شکوک سے بالاتر، بے داغ ہے یا داغدار، تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں واحد بندہ ہےجس کا فوج اور حکومت سے مسلسل رابطہ ہے اور اگر عمران خان نے کوئی ڈیل کرنی ہے، کوئی راستہ نکالنا ہے یا کوئی ریلیف لینا ہے تو وہ گنڈا پور کے ذریعے ہی ممکن ہے، بشریٰ بی بی کی رہائی بھی صرف اور صرف گنڈا پور کی ضمانت سے ہی ممکن ہوئی تھی۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہو سکتا یے کہ فوج اور حکومت تنگ آ کر کے پی میں گورنر راج لگا دیں تاکہ اسلام آباد پرچڑھائیاں تو بند ہوں، مگر زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ پختونخوا حکومت کے ساتھ کوئی ورکنگ ریلیشن شپ بنایا جائے۔ گورنر راج نہ لگانے کے خلاف پہلی دلیل یہ ہے کہ باوجود کشیدگی اور لڑائی کے تحریک انصاف کی موجودہ سیٹ اپ میں صوبائی حکومت ایک سٹیک ہولڈر ہے اس وجہ سے وہ نظام کا بھی حصہ ہے اور اسے نظام کا حصہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ عوام میں بہت مقبول ہے، تحریک انصاف کو لاتعلق کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تحریک انصاف سے اقتدار لے کر دیا کسے جائے؟ گورنر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے وہ دبنگ اور پڑھے لکھے ہیں لیکن پیپلزپارٹی صوبہ بھر میں بہت ہی کمزور ہےاسے پی ٹی آئی اور طالبان مل کر نشانہ بنائیں گے اور یوں اس کا بچائو ہی ناممکن ہو جائے گا۔ اے این پی کبھی بہت مضبوط ہوا کرتی تھی اب بھی ہر جگہ اس کے حامی تو موجود ہیں لیکن اسے اقتدار میں شامل بھی کرلیا جائے تو اس سے فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیرکا نارووال اور سیالکوٹ میں فیلڈٹریننگ مشقوں کا معائنہ

انکا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی پختونخوا میں بری طرح شکست کھا گئی تھی، دوسرا ان کا مسئلہ طالبان ہیں وہ فکری اور مسلکی طور پر طالبان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان فوج کے ساتھ کھڑے ہوئے تو طالبان ان کو ٹارگٹ بنا لیں گے اور باربار ان پر حملے کریں گے اس لئے وہ خود بھی اقتدار لینے سے ہچکچائیں گے۔تیسری دلیل یہ ہے کہ گورنر راج کی صورت میں کوئی بڑی سویلین قیادت یا جماعت متبادل نہیں بن سکے گی یوں فوج کو براہ راست صوبہ سنبھالنا پڑے گا۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ تحریک انصاف اور فوج کے لاکھ اختلافات ہوں دہشت گردی اور پختون قوم پرستوں کے خلاف دونوں اکٹھے ہیں اور کوئی طاقت ان کا متبادل نہیں بن سکتی۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں گورنر راج کے نفاذ کا مخالف ہوں۔ حالانکہ گورنر راج کا نفاذ ایک آئینی قدمی ہے مگر یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔

Back to top button