پاکستان میں جعلی کرنسی نوٹوں کے کاروبار میں ملوث مافیا کون؟

پاکستان کی گلیوں، بازاروں اور بینکوں میں زیر گردش جعلی نوٹوں کے زہر نے ملکی معاشی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ تاہم ریاستی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے اب جعلی نوٹوں کا یہ کاروبار کسی ایک فرد یا گروہ تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک بڑی کاروباری سلطنت اور منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں سرحد پار سمگلر، مقامی مافیا اور بعض بااثر حلقے بھی شامل ہیں۔ جو اس مکروہ کاروبار کی مکمل سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ اس مافیا کے کارندوں کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کوئی بھی فرد واحد جعلی نوٹوں کا کاروبار نہیں کرتا بلکہ جعلی نوٹوں کے دھندے میں باقاعدہ ایک نیٹ ورک ملوث ہوتا ہے۔ پاکستان میں جعلی نوٹ اکثر سرحدی علاقوں سے داخل کیے جاتے ہیں، خاص طور پر افغانستان اور ایران کی سرحدوں یا بعض اوقات خلیجی ممالک سے اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان میں جعلی نوٹ پہنچائے جاتے ہیں۔ اندرونِ ملک بھی کچھ پرنٹنگ پریسز یا ٹیکنالوجی ماہر افراد اس کام میں ملوث پائے گئے ہیں، جو جدید پرنٹنگ مشینوں اور سافٹ ویئرز کے ذریعے جعلی کرنسی نوٹوں کی کاپیاں تیار کرتے ہیں۔ پھر یہ جعلی نوٹ بڑی مارکیٹوں، ٹرانسپورٹ اڈوں، اور غیر رسمی کاروباری لین دین کے ذریعے عام لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
اس مکروہ دھندے میں مختلف سطحوں پر عناصر شامل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی اسمگلنگ نیٹ ورکس جعلی نوٹ پاکستان میں داخل کرتے ہیں، مقامی گروہ اور پرنٹنگ مافیا اندرون ملک ان کی تیاری کرتے ہیں، جبکہ جرائم پیشہ عناصر اور منی لانڈرنگ گروپس ان نوٹوں کو معیشت میں گھما کر اصل پیسے میں بدلنے کا کام کرتے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد یا سرکاری اہلکار بھی ان نیٹ ورکس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا کے علاقے درہ سے کراچی 60لاکھ روپے کےجعلی نوٹ سمگل کرتے ہوئے پکڑے جانے والے ملزم اسفند نے بتایا کہ وہ یہ نوٹ درہ کے علاقے سے لے کر آیا ہے، جہاں جعلی کرنسی کی تیاری اور تقسیم کا ایک منظم دھندا ہو رہا ہے۔‘اس کے مطابق ایک لاکھ روپے مالیت کے جعلی نوٹ صرف 16 سے 17 ہزار روپے میں دستیاب ہوتے ہیں جبکہ جعلی نوٹوں کی ملک بھر میں ترسیل کرنے والے کوریئر کو فی پیکٹ دو ہزار روپے کمیشن دیا جاتا ہے۔ اس بار چونکہ وہ ساٹھ لاکھ روپے کے نوٹ کراچی لا رہا تھا تو اس لیے اسے ایک لاکھ روپے معاوضہ ملنے والا تھا تاہم وہ گرفت میں آ گیا۔ ملزم کے اس اعتراف سے پتا چلتا ہے اس پورے دھندے میں کوئی ایک شخص نہیں بلکہ ایک منظم نیٹ ورک ملوث ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق جعلی کرنسی کی یہ ترسیل صرف کراچی تک محدود نہیں۔ ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔بڑے تجارتی مراکز اور ہول سیل منڈیاں اس کاروبار کا سب سے آسان ہدف ہیں کیونکہ وہاں روزانہ کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے اور نوٹوں کی تصدیق کے لیے وقت نہیں ملتا۔ یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی نوٹ بڑی آسانی سے گردش میں لائے جا رہے ہیں۔ تاہم موجودہ صورتحال میں یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ ملک میں ہزر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہونے والے جعلی کرنسی نوٹوں کے دھندے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اسفند کی طرح کے کوریئرز تو صرف ایک کڑی ہیں، مگر جن کے اشاروں پر یہ پورا نظام چل رہا ہے وہ ابھی تک پردے میں ہیں۔ آخر اتنے برسوں بعد بھی جعلی نوٹوں کا دھندا ختم کیوں نہیں ہو سکا؟ ماہرین کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں۔ قانونی سطح پر جعلی کرنسی سے متعلق قوانین موجود تو ہیں لیکن ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا اور اکثر کیسز ناقص تفتیش یا ثبوت کی کمی کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔ ادارہ جاتی سطح پر اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے جیسے ادارے بھی اس مسئلے پرقابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں جبکہ سیاسی و انتظامی سرپرستی بھی اس مافیا پر شکنجہ کسنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جب تک ریاست اسے قومی ترجیح نہیں بناتی، جعلی کرنسی کا زہر معیشت کی رگوں میں بہتا رہے گا۔
