عمران کے فوج مخالف ایکس اکاؤنٹس علیمہ چلاتی ہےکوئی اور؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جیل میں قید ہونے کے باوجود ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ریاستی اداروں کے خلاف زہرفشانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے آئے روز عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے ریاستی اداروں و حکومت پر تنقید اورعسکری قیادت کے خلاف الزامات پر مبنی بیانات سامنے آتے رہتے ہیں یہ ٹوئٹس نہ صرف وائرل ہوتے ہیں بلکہ ملکی سیاست میں نئی بحثوں کو جنم دیتے ہیں۔ عمران خان کے جیل جانے کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث سوالات میں شامل سب سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے جیل جانے کے بعد ان کا ایکس اکاؤنٹ کون آپریٹ کرتا ہے؟ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا اصل ہینڈلر کون ہے اور وہ کس کے اشارے پر ریاست مخالف بیانیہ آگے بڑھا رہا ہے؟
انھی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کیلئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر اداروں کی جانب سے عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ کی فعالیت کی تحقیقات جاری ہیں۔ حالیہ دنوں اس حوالے سے شروع کی گئی تحقیقات میں بانی پی ٹی آئی کے تعاون کرنے سے صاف انکار کے بعد ایک بار پھر عمران خان سے ان کے ’ایکس‘ ہینڈل کے استعمال بارے تفتیش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم تحقیقاتی ادارے نے اس بار روبرو سوالات کی بجائے 21 نکاتی سوال نامہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حوالے کر دیا ہے، ذرائع کے مطابق اب سوال نامے کے تحریری جوابات کی روشنی میں تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق این سی سی آئی اے نے اپنے تحریری سوالنامے میں عمران خان سے استفسار کیا ہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود آپ کا ایکس اکاؤنٹ فعال کیسے ہے؟ آپ کا ایکس یعنی ٹوئٹر اکاؤنٹ کہاں سے اور کون آپریٹ کرتا ہے؟ کیا آپ ذاتی ایکس اکاؤنٹ سے ہونے والی پوسٹس کو تسلیم کرتے ہیں؟ ایک سوال میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا ملک مخالف ٹوئٹس آپ کی مرضی سے پوسٹ کی جاتی ہیں؟
خیال رہے کہ این سی سی آئی اے کی تفتیشی ٹیم اس حوالے سے تحقیقات کیلئے 2 مرتبہ بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرچکی ہے، تاہم بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جیل میں این سی سی آئی اے کی ٹیم سے تعاون نہیں کیا۔ دوسری ملاقات میں عمران خان نے تفتیشی ٹیم کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی تھی، تاہم بانی پی ٹی آئی کے عدم تعاون کے وجہ سے اب تحریری سوال نامہ ان کے حوالے کیا گیا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے اپنے اصل ٹوئٹر ہینڈلر کا نام بتانے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تمام ہینڈلرز کے نام ظاہر کرینگے تو متعلقہ افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ کا "اصل ہینڈلر” کون ہے، یہ سوال آج بھی واضح جواب سے محروم ہے۔تفتیشی اداروں کی رپورٹس اور میڈیا اطلاعات میں اس حوالے سے علیمہ خان اور جبران الیاس سمیت مختلف نام گردش کرتے رہے ہیں۔ جبکہ کچھ حکومتی وزراء عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ کے بیرونِ ملک سے چلنے کے دعوے کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض وزراء اس حوالے سے حریف ملکوں کی مداخلت تک کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیانات پارٹی کے ڈیجیٹل ونگ یا قریبی ٹیم کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سب پیشگی تیار شدہ پیغامات اور پارٹی کی میڈیا حکمت عملی کا حصہ ہیں، جنہیں کسی نہ کسی نمائندے کے ذریعے ایکس پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کبھی بھی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آ سکے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا کی اس جنگ میں بیانیے کا تسلسل عمران خان کو سیاسی منظرنامے سے غائب نہیں ہونے دیتا۔ مبصرین اسے جدید سیاست کا ایک "ورچوئل ہتھیار” قرار دیتے ہیں، جو ریاستی اداروں کیلئے قید و بند کی دیواروں سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہو رہا ہے۔ جس کا قلعہ قمع کرنے میں وہ تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کی سیاست میں سوشل میڈیا ہمیشہ ایک کلیدی ہتھیار رہا ہے۔ وہ اسے اپنے بیانیے کو عوام تک پہنچانے اور مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے براہِ راست چینل کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ مگر جب وہ جیل گئے، تو توقع کی جا رہی تھی کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند اور ان کا بیانیہ کمزور پڑ جائے گا۔ تاہم اس کے برعکس، ان کے ایکس اکاؤنٹ سے مسلسل نفرت انگیز اور جھوٹے پراپیگنڈے پر مبنی پوسٹس کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جیل میں قید کی وجہ سے عمران خان براہِ راست اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی نہیں رکھتے تو پھر ان کے ایکس اکاؤنٹ پر جارحانہ ریاست مخالف بیانات کون جاری کرتا ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق،بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ کی سرگرمی دراصل پی ٹی آئی کی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے عمران خان کو "خاموش قیدی” نہیں بلکہ "فعال مزاحمتی آواز” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی قیادت سمجھتی ہے کہ عمران خان کی آن لائن موجودگی ختم کرنے سے کارکنان میں مایوسی پھیل سکتی ہے اور پارٹی تتر بتر ہو سکتی ہے۔ سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس محض ذاتی اظہار کے پلیٹ فارم نہیں رہے، بلکہ یہ پارٹی کی پالیسی، بیانیے اور عوامی ذہن سازی کا بنیادی ذریعہ بن چکے ہیں۔
