دبئی میں ہونے والی پاک بھارت کرکٹ کی جنگ کا فاتح کون ہو گا؟

آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو ہمارے کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے کسی مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں تو ہمارے شیر گیدڑ کیوں بن جاتے۔ ‘نان ورلڈ کپ’ میچز میں پاکستانی کھلاڑیوں سے چھکے بھی لگتے ہیں اور یہ بھارتی وکٹیں بھی اڑاتے ہیں، لیکن جیسے ہی میچ کے ساتھ ‘آئی سی سی’ اور ‘ورلڈ کپ’ لگتا ہے تو پاکستانی کھلاڑیوں کے اپنے چھکے بھی چھوٹ جاتے ہیں اور انکے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ جاتے ہیں۔

اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چیمپینز ٹرافی کے فائنل کے بعد سے اب تک پونے آٹھ سال کے دوران پاکستانی ٹیم پچاس اوورز کے کسی میچ میں انڈیا کوشکست نہیں دے سکی۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ 23 فروری 2025 کو دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کی ٹیموں میں جو مقابلہ ہونے جا رہا ہے اس کا فاتح کون ہے ٹھہرتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ میچ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ وہ پہلے ہی میچ میں نیوزی لینڈ سے شکست کھا چکا ہے لہذا انڈیا سے میچ ہارنے کی صورت میں اس کے چیمپینز ٹرافی سے باہر ہو جانے کے خدشات پیدا ہو جائیں گے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پچاس اوورز کی محدود کرکٹ میں دونوں ٹیموں کا 135 بار ٹاکرا ہوا ہے اور پانچ بے نتیجہ میچز کو نکال کر، پاکستان کا پلہ بھاری ہی رہا ہے جس نے 130 میں سے 73 مرتبہ فتح سمیٹی ہے۔ لیکن آئی سی سی ٹورنامنٹ کے 21 میچوں میں یہی ٹیم صرف چار میچ جیت سکی ہے۔ تھوڑا ماضی میں جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سرا مل تو سکتا ہے جہاں سے خرابی کا پتہ چلے۔

بی بی سی اردو نے ان ‘آئی سی سی’ میچوں کی شکستوں پر سابق ٹیسٹ کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر، معین خان سے بات کی ہے۔

معین خان 1992 میں پاکستان کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے اور 1999 کے عالمی کپ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو ایک ہی جیتتی ہے مگر ایسی ‘مسابقت’ میں جو چیز آپ کے اعصاب کو مجروح کرتی ہے وہ دباؤ ہوتا ہے۔ انکے مطابق آئی سی سی ورلڈ کپ کے میچز میں صرف پریشر ہوتا ہے اور کوئی بات نہیں۔’

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے بعد کے ایڈیشن میں دونوں ٹیمیں کئی دفعہ ملیں۔ چیمپئنز ٹرافی کے میچز میں پاکستان کو ہلکا سے ‘ایج’ حاصل ہے کیونکہ یہاں پانچ میں سے پاکستان نے دو کے مقابلے میں تین میچ جیتے ہیں۔ 2004 میں برمنگھم اور 2009 میں سینچورین میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی، مگر 2013 اور 2017 کے لیگ میچوں میں پاکستان کی ناقص کارکردگی نے اسے فتح سے دور رکھا۔ لیکن 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔ لیکن اب وہ زمانہ نہیں تھا کہ پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا عام سی بات ہو۔ پچھلے بیس سالوں میں انڈیا کی فتح کا تناسب زیادہ رہا ہے۔ دراصل آئی پی ایل نے انڈیا کو بدل دیا ہے۔ وہ پریشر کرکٹ ہے جس میں ہر میچ میں سٹیڈیم بھرا ہوتا ہے، کھلاڑی کو فوکس کرنے میں مشکل ہوتی ہے کیونکہ کراؤڈ کا شور ہوتا ہے لیکن وہ اس کے عادی ہو گئے۔ انھوں نے دس بارہ سالوں میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی ہے جس سے ان کے اندر کا خوف نکل گیا ہے۔ معین خان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی اب بھی خود کو اعصابی طور پر مضبوط کہتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اب انڈین پلئیرز اعصابی اور تکنیکی طور پر ہم پاکستانیوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔

سابق کپتان آصف اقبال کا کہنا تھا کہ ‘انڈیا کا فرسٹ کلاس کرکٹ کا ایک بڑا اچھا سسٹم بن چکا ہے۔ وہاں جونیئر سٹیٹ لیول ہے، سینیئر سٹیٹ لیول ہے، مقامی ٹرافیز ہیں جیسے کہ رنجی، دلیپ وغیرہ جہاں سے تسلسل کے ساتھ اچھے کھلاڑی نکلتے ہیں۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی وجہ سے بہت سارے والدین بچوں کو کرکٹ اکیڈمیز بھیجتے ہیں کیونکہ اس سے زندگی بن سکتی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نکھراہوا ٹیلنٹ نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین نے اپنے سسٹم کو مضبوط کیا ہے اور اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی کے پیچھے نہیں لگایا۔ انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کو اہمیت دی کیونکہ جب تک بندہ لمبی کرکٹ نہیں کھیلے گا، ٹمپرامنٹ نہیں بنے گا۔ انھوں نے کہا کہ ‘جب تک کسی پلئیر کو پریشر ہینڈل کرنا نہیں آئے گا وہ کیسے کامیاب ہو گا؟ ہم لوگوں نے اپنے ڈومیسٹک سسٹم کو مکمل نظر انداز کیا ہے۔ یہاں تو ہم موسم کی طرح سسٹم بدل دیتے ہیں۔ ہم لوگ تو اس لیے پاکستان کے لیے کھیل گئے کہ ہم انڈر ففٹین اور انڈر نائنٹین کے دھکے کھا کر آئے تھے، اب تو صرف تجربے ہو رہے ہیں۔

پاکستان کو واحد چیمپئنز ٹرافی جتوانے والے سابق کپتان سرفراز احمد بھی انڈر نائنٹین کی پیداوار تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں دکھائی گئی کارکردگی دہرا سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے لیکن اس کے لیے ٹیم کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن آٹھ سال پہلے کی کارکردگی دہرائی نہیں جا سکتی۔ اُس میچ میں ٹاپ کوالٹی بالنگ تھی، ابھی ویسا کوئی بولر نہیں جس کی دھاک ہو۔ دنیا بھر کی ٹیمیں سال ڈیڑھ پہلے تیار کی جاتی ہیں، ہمارا آخری میچ تک کمبینیشن سیٹ ہو رہا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم لوگ سوچتے نہیں اور شارٹ کٹ سے ٹیم چلاتے ہیں۔ ہماری ٹیم میں اتحاد نہیں ہے۔ آپس کے اختلافات بہت ہیں۔’ تاہم آصف اقبال کی رائے کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے میں کوئی بھی ٹیم کسی بھی ٹورنامنٹ میں جاتی ہے تو وہ فیورٹ نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا دن اچھا رہا اور ایک یا دو کھلاڑی کلک کر گئے تو میچ کا نتیجہ بدل سکتا ہے۔’

عمران خان کے لیے شہباز حکومت کو گرانا اب ممکن کیوں نہیں رہا؟

اس بار بھی پاکستان کی قیادت سرفراز کی طرح ایک وکٹ کیپر کپتان رضوان کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا دیکھتے ہیں کہ دل اور دماغ کی اس لڑائی میں جیت کس کی ہو گی کیونکہ اب انڈیا وہ کرکٹ کھیلتی ہے جو کبھی ہم کھیلتے تھے، اور ہم ویسی، جیسے ان سے منسوب تھی۔

Back to top button