ایوب دور میں 1965 کی پاک انڈیا جنگ کون جیتا تھا اور کون ہارا تھا؟

ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ ہوئے 60 برس بیت گئے لیکن ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ اس جنگ میں کس ملک کو شکست ہوئی تھی اور کس کو فتح نصیب ہوئی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ 1965 کی جنگ وہ جیتا لیکن بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ تو پھر سوال یہ یے کہ یہ جنگ ہارا کونسا ملک تھا ؟ اگر دونوں طرف کے سرکاری مورخوں کو زیادہ تنگ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے دوسرے کو نہیں جیتنے دیا۔
بھارتی بیانیہ کے مطابق 1965 کی جنگ دراصل 5 اگست کو شروع ہوئی جب ایوب دور میں 10 ہزار کشمیری سویلین رضاکاروں اور سادہ لباس پہنے فوجیوں پر مشتمل جبرالٹر فورس بھارت کے جموں کشمیر میں بغاوت ابھارنے اور قبضہ کرنے کے لیے بھیجی گئی۔ لیکن پاکستانی آپریشن جبرالٹر ناکام ہوگیا تو بھارت نے آگے بڑھ کر حاجی پیر، کارگل اور ٹیٹوال کے دروں پر بھی قبضہ کرلیا۔اس جوابی کارروائی کا زور توڑنے کے لیے پاکستان نے یکم ستمبر 1965 کو اکھنور اور جموں کشمیر پر قبضے کے لیے آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا جسکا زور توڑنے کے لیے بھارت نے 6 ستمبر کو لاہور سیالکوٹ سیکٹر میں بین الاقوامی سرحد پار کر لی۔
مگر دوسری جانب پاکستان کی سرکاری کتب میں پڑھائی جانے والی تاریخ پر نظر دوڑایئں تو لگتا ہے کہ 1965 کی جنگ 6 ستمبر کو شروع ہوئی۔ ان کتابوں میں سرے سے آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام کا کوئی ذکر ہی نہیں اور نہ آج تک اس راز سے پردہ اٹھا کہ جب کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے لیے اکھنور کی جانب پیش قدمی تیزی سے جاری تھی تو اسے اچانک روک کر آپریشن گرینڈ سلام کے خالق اختر حسین ملک کی جگہ میجر جنرل یحییٰ خان کو فوج کی کمانڈ کیوں دے دی گئی جس کے بعد پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارتی فوج کے جنرل گوربخش سنگھ کے مطابق اکھنور کی جانب پاکستانی پیش قدمی کا 36 گھنٹے تک خود بخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد کے مترادف تھا جس کا ہم نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آپریشن گرینڈ سلام کو ناکام بنا دیالیکن اس حوالے سے کچھ اور سوالات 55 برس بعد بھی جواب طلب ہیں۔ مثلاً یہ کہ 1965 کی جنگ کا مقصد اگر کشمیر کی آزادی تھا تو کیا ایوب خان کے ناکام آپریشن جبرالٹر سے پہلے بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں آزادی پسند قیادت کو پیشگی اعتماد میں لیا گیا؟ یا پھر فرض کرلیا گیا کہ عام کشمیری اپنے نجات دھندوں کو دیکھتے ہی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سوال یہ بھی یے کہ کیا پاک فوج کا یہی تجربہ اکتوبر 1947 میں بھی ناکام نہیں ہوا تھا؟
سوال یہ بھی یے کہ جنرل ایوب خان اور جنرل موسی خان آخر کس مفروضے پر کشمیر کی آزادی کا جنگی پلان بنا رہے تھے اور ایسا کیوں سوچ رہے تھے کہ یہ لڑائی صرف کشمیر تک ہی محدود رہے گی اور بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی حماقت نہیں کرے گا۔ لہذا نہ ائیر فورس اور بحریہ کو اس پلان میں شریک کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی لاہور اور سیالکوٹ کی ڈویثرنل کمان کو فارورڈ پوزیشنز پر بھیجنے کے احکامات کی ضرورت مھسوس یوئی۔ اسی طرح نہ تو چھٹی پر گئے ہوئے 25 فی صد فوجی جوانوں اور افسروں کو طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کو کچھ بتانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ نہ ہی یہ سوچا گیا کہ بھارت نے اگر دوسرا محاذ مشرقی پاکستان کی طرف سے کھول دیا تو کیا ہوگا؟
سوال یہ بھی یے کہ کیا جنگ سے پہلے ایوب اور پاکستانی فوجی ہائی کمان نے یہ سوچا تھا کہ پاکستان کے پاس کتنے دن کی جنگ لڑنے کا اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہے اور جنگ طول پکڑتی ہے تو کیا ہوگا؟جنگ ہمیشہ خاص قومی اہداف حاصل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کا ہدف کشمیر کی آزادی تھا تو یہ ہدف حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ 1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی۔
1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کے تحت بھارت نے 710 مربع میل علاقہ پاکستان کو اور پاکستان نے210 مربع میل علاقہ بھارت کو واپس کیا اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔ پاکستان معاہدہِ تاشقند میں اقوامِ متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ تک شامل نہ کروا پایا۔ یوں یہ مسئلہ مزید ناقابلِ حل ہوتا چلا گیا۔آپریشن جبرالٹر کے دوران کتنے پاکستانی جان سے گئے؟ ان کی قربانیوں کے بارے میں عسکری تاریخ خاموش ہے۔ بس یہ بتایا جاتا ہے کہ چھ سے 22 ستمبر تک 3800 پاکستانی فوجیوں اور 5500 کے لگ بھگ ہندوستانی فوجیوں کی جان گئی اور اتنے طیارے اور اتنے ٹینک تباہ ہوئے۔ سچ یہ یے کہ بظاہر نہ پاکستان کے پاس کوئی حقیقی جنگی پلان تھا نہ بھارت کے پاس۔ شاید اسی لیے دونوں ممالک نے 17 دن بعد ہی اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی قرارداد فوراً مان لی ۔
لیکن انفرادی سطح پر جرات و بہادری کی داستانیں بہرحال رقم ہوئیں۔ ایک جانب اگر پاکستان کی ناقص جنگی پلاننگ نے بھارت کو سنبھالا دیا تو دوسری جانب پاکستانی فضائیہ اور آرمڈ دستوں نے بھارت کو روکنے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ جنگ ریڈیو پاکستان اور آکاش وانی پر بھی خوب لڑی گئی۔ اس جنگ کے طفیل بھارت میں ہندی میں اور پاکستان میں اردو اور پنجابی میں لہو گرما دینے والے جنگی ترانے تخلیق ہوئے۔
بھارت نے اپنی جنگی ناکامیوں کے بعد خاموشی سے حکمتِ عملی تبدیل کی جس کا نتیجہ 1971 کی جنگ میں نکلا جو پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے پر منتج ہوا جبکہ پاکستانی فوجی قیادت نے 1965 کی جنگ میں بیرونی تو کیا ان ہاؤس تحقیقات کی زحمت بھی نہیں کی۔کئی برس بعد لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) محمود احمد نے ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی مسودہ لکھا مگر وہ بھی کتابی شکل میں ڈھلنے کی اجازت نہ پا سکا۔ شاندار فتح کے نصابی و سرکاری پروپیگنڈے تلے سب دب دبا گیا۔ چنانچہ 1971 کی جنگ بھی ویسی ہی ناقص منصوبہ بندی کے تحت لڑی گئی اور پھر کارگل کی لڑائی بھی 1948 اور 1965 کی فوجی حکمتِ عملی کی فوٹو کاپی سامنے رکھ کے لڑی گئی۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔

Back to top button