پاکستانی ایئرپورٹس سے سفرکرنے والے فراڈیے گرفتار کیوں ہونے لگے؟

پاکستان سے جعلی ویزوں اور دستاویزات پر بیرون ملک سفر کی کوشش کرنے والوں کی حالیہ مہینوں میں بڑی تعداد میں گرفتاریوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تمام پاکستانی ایئرپورٹس پر جدید ترین ٹریننگ سسٹم نصب ہو چکا ہے جو صرف چند سیکنڈز میں جعلی دستاویزات کی نشاندہی کر دیتا ہے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کی ذاتی کوششوں سے پاکستانی ایئرپورٹس پر اب "سکینڈ لائن بارڈر کنٹرول سسٹم” نامی ایسا جدید ٹریکنگ نظام نصب ہو گیا ہے جسے چکمہ دے کر نکلنا اب کسی بھی فراڈیے کے لیے ممکن نہیں رہا، اسی وجہ سے اب جعلی دستاویزات پر غیر قانونی طریقے سے سفر کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں گرفتار ہو رہے ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق پاکستانی ہوائی اڈوں پر حال ہی میں انٹرنیشنل سینٹر فار امیگریشن پالیسی ڈیویلپمنٹ کے تعاون سے جو جدید ترین ٹریکنگ سسٹم نصب کیا گیا ہے، اس کے تحت اب جعلی ویزوں اور دیگر جعلی دستاویزات پر پاکستان سے باہر نکلنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سکینڈ لائن بارڈر کنٹرول سسٹم جدید مشینوں کے ذریعے کام کرتا ہے اور چند ہی سینکڈز میں مسافروں کی دستاویزات کی تصدیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک سینیئر افسر کے مطابق پچھلے 10 ماہ کے دوران پاکستان کے پانچ بین الاقوامی ایئرپورٹ سے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، یورپ اور خلیجی ممالک کی جانب سفر کرنے والے 100 سے زائد مسافروں کے ویزے سکینڈ لائن آفس کے سکینگ سسٹم سے جعلی ثابت ہوئے۔ ان ویزوں میں بین الاقوامی ویزوں والی کوئی بھی یو وی UV خصوصیات نہیں تھیں، جس سے ثابت ہوتا تھا کہ پاسپورٹس پر جو ویزے لگے ہوئے ہیں وہ جعلی ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق رواں سال 2024 میں ایک سو سے زائد افراد نے جعلی ویزے اور دستاویزات پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کی، تاہم ایف آئی اے نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان لوگوں کو بیرونِ ملک جانے سے روک دیا۔ ان افراد میں سے بیشتر پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب کے علاقے گجرات سے تعلق رکھنے والے محمد کاشان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان سے یورپ جانے کے لیے ایک ایجنٹ کا شکار بنے۔ انہوں نے فرانس جانے کے لیے ایک ایجنٹ کو 55 لاکھ روپے دیے تھے۔
محمد کاشان کے مطابق ایک پرانے دوست کے توسط سے انہیں حماد چیمہ نامی ایک ایجنٹ نے 55 لاکھ روپے کے عوض فرانس کا وزٹ ویزا دیا تھا۔

کاشان نے طے شدہ رقم کی ادائیگی کے بعد اپنا پاسپورٹ ایجنٹ سے حاصل کیا جس کے بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر چیک اِن کیا۔ بورڈنگ پاس حاصل کرکے جب وہ ایف آئی اے کے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو انہیں ایف آئی اے کے اہلکاروں نے روک لیا۔ کاشان سے کچھ سوال جواب کیے گئے اور پھر انہیں آف لوڈ کرکے ایف آئی اے ہیومن ٹریفکنگ سرکل کے حوالے کردیا گیا۔
چند ماہ کی مشکلات کے بعد کاشان ضمانت پر رہا ہوئے اور اس ایجنٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔ کاشان کا کہنا تھا کہ ’اُن جیسے کئی افراد نے ان ایجنٹوں کو بہتر مستقبل کی غرض سے کئی کئی لاکھ روپے کی ادائیگی کی، پیسے بھی گئے، اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔‘

ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پاکستان کے تمام ہی صوبوں میں ایسے ایجنٹ فعال ہیں جو شہریوں کو بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر ملک سے باہر بھیجنے کا غیر قانونی دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں، ان میں سے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود اب بھی کئی بڑے ایجنٹ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیے گئے انسانی سمگلرز میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔‘ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں یہ ایجنٹ بہت زیادہ متحرک ہیں۔ ان ایجنٹوں کا ہدف پنجاب کے دیہی علاقے کے عوام ہیں، جو ان کی باتوں میں آکر اپنا گھر، زمین اور کاروبار سمیت زندگی بھر کی جمع پونجی ان ان کو دے دیتے ہیں۔ کئی افراد ڈنکی مافیا کی لپیٹ میں آجاتے ہیں تو کئی کو جعلی ویزا کے ذریعے ٹھگ لیا جاتا ہے۔

Back to top button