نیپالی وزیراعظم کے استعفے کے باوجود مظاہرے کیوں نہیں رک رہے؟

نیپال میں بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد چار مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کے پی شرما ارلی نے استعفی تو دے دیا ہے لیکن دارالحکومت کھٹمنڈو میں پر تشدد مظاہرے اب بھی جاری ہیں جنکے نتیجے میں 22 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کٹھمنڈو میں نہ صرف پارلیمنٹ کی عمارت کو نذرِ آتش کر دیا گیا بلکہ مشتعل ہجوم نے دیگر سرکاری عمارتوں اور وزیروں کے گھروں پر بھی حملے کیے۔

تاہم حکومت مخالف احتجاج میں سب سے سرگرم کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کی تنظیم جنریشن زی نے کٹھمنڈو میں ہونے والے پرتشدد واقعات سے لا تعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تحریک کو ’موقع پرستوں نے ہائی جیک‘ کر لیا ہے۔ مظاہرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نیپال کی جنریشن زی کے احتجاجی مظاہروں کا واضح مقصد حکمرانوں کا احتساب اور بدعنوانی کا خاتمہ تھا۔ ہم نے اس مقصد کے لیے ایک پرامن تحریک چلائی تھی جس سے اور تشدد عناصر نے ہائی جیک کر لیا۔ ہمارا مقصد کبھی بھی روز مرہ کی زندگیوں کو متاثر کرنا یا کسی کو ہماری تحریک کا غلط استعمال کرنے دینا نہیں تھا۔’

دوسری جانب بے امنی روکنے کے لیے کٹھمنڈو میں فوجی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ تاہم جیل حکام کے مطابق افراتفری میں مغربی اضلاع کی دو جیلوں سے 900 قیدی فرار ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ نیپال میں احتجاجی مظاہرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کے بعد شدت اختیار کر گئے تھے۔ اگرچہ یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی تاہم اس وقت تک یہ مظاہرے ایک تحریک میں بدل چکے تھے۔ اس کے بعدنیپال کے آرمی چیف نے ایک بیان میں مظاہرین پر موجودہ بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار اور آتشزنی کا الزام لگایا گیا۔ نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدل نے ایک ویڈیو پیغام میں مظاہرین کو بات چیت کی دعوت دی تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی بحران سے نکلا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بدامنی جاری رہی تو ‘تمام سکیورٹی ادارے بشمول نیپال کی فوج صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے پُرعزم ہے۔’

کھٹمنڈو میں تشدد مظاہرین کو اپنا احتجاج ختم کرنے کے لیے فوج کی جانب سے ایک ڈیڈلائن بھی دی گئی جس کا نتیجہ آنا باقی ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 11 ستمبر تک کرفیو نافذ رہے گا اور سڑکوں پر نکلنے والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس دوران نیپالی وزیر اعظم مستعفی ہو چکے ہیں مگر یہ واضح نہیں کہ ان کی جگہ کون لے گا یا آگے کیا ہوگا کیونکہ اس وقت ملک کا کوئی سربراہ نہیں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وزرا سمیت بعض رہنماؤں نے سکیورٹی فورسز کے پاس پناہ لے رکھی ہے۔

خیال رہے کہ 73 سالہ کے پی اولی چار مرتبہ نیپال کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کی رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے ان کا استعفی موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے آئینی حل کی راہ ہموار کرے گا۔ نیپالی وزیراعظم کے استعفے کے بعد سینکڑوں مظاہرین نے پارلیمینٹ کے اندر اپنی فتح کا جشن منایا۔ وہ عمارت کے داخلے پر لگی آگ کے گرد رقص کرتے نظر آئے اور انھوں نے نیپال کا پرچم تھامے نعرے بازی بھی کی۔ کچھ لوگ عمارت کے اندر داخل ہوئے جہاں تمام کھڑکیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ نیپال کے تمام بڑے شہروں کی دیواروں پر حکومت مخالف پیغامات سپرے کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ نیپال میں مظاہروں کا آغاز تب ہوا جب حکومت نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کچھ نئے قوانین نافذ کیے جن کے تحت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو خود کو حکومت کے ساتھ رجسٹر کرانا لازمی تھا۔ گذشتہ ہفتے نیپالی حکومت نے رجسٹریشن کی ڈیڈلائن پر عملدرآمد نہ کرنے والے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی تھی۔ ملک میں انسٹاگرام اور فیس بُک کے لاکھوں صارفین ہیں جو تفریح، خبروں اور کاروبار کے لیے ان پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں۔ حکومت نے پابندی کا جواز کچھ یوں دیا کہ یہ فیک نیوز، نفرت انگیز تقاریر اور آن لائن فراڈ کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔

تاہم نوجوانوں نے اس اقدام پر تنقید کی اور اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔اگرچہ یہ پابندی جلد بازی میں چند ہی روز بعد ختم کر دی گئی تاہم مظاہرین کو روکا نہ جاسکا۔ ان مظاہرین نے سیاسی ایلیٹ کو نشانہ بنایا جس سے ملک میں افراتفری پیدا ہوئی اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نیپال میں اس سے قبل اس بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے نہیں دیکھے گئے جن کا آغاز سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے ہوا اور ان کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی ہو۔ مظاہرین میں سے زیادہ تر کا تعلق ‘جینریشن زی’ سے ہے، یعنی ایسے نوجوان جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔ یہ اصطلاح نیپال میں نوجوانوں کی مزاحمتی تحریک کی علامت بن گئی ہے۔ اگرچہ ان مظاہروں کی کوئی مرکزی قیادت نہیں تھی تاہم نوجوانوں کے کئی گروپس نے مظاہرین کو جمع کیا۔ ان کے دو مطالبے واضح تھے: پہلا یہ کہ حکومت سوشل میڈیا پر سے پابندی ختم کرے جبکہ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکام کرپشن کو ختم کریں۔ مظاہرین نے سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار پر پابندی اور سیات دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے جوڑا تھا۔ نیپال میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ عام لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ویڈیوز کے مطابق اشرافیہ ڈیزائنر کپڑے، غیر ملکی دوروں اور لگژری گاڑیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ نیپالی نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!