فوج اب کبھی عمران خان کو اقتدار میں کیوں نہیں آنے دے گی؟

عمران خان کو اڈیالہ جیل کا باسی بنے لمبا عرصہ بیت چکا ہے تاہم قید وبند کی صعوبتیں بھی عمران خان کو سیاسی طور اطوار سکھانے میں یکسر ناکام رہی ہیں اب بھی عمران خان جیل میں بیٹھ کر اپنے مخالفین کو گالیاں دیتا ہے اور مستقبل میں انھیں نشان عبرت بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اگر عمران خان کو دوبارہ اقتدار سونپا گیاتو معیشت ڈوب جائے گی ،انتقام کا سلسلہ جہاں رکا تھا وہاں سے شروع ہو کر انتہائوں تک جا پہنچے گا۔ نئے بزدار اور نئے محمود خان گورننس کا خانہ خراب کر دیں گے، میڈیا کا گلا گھوٹنے کیلئے پھر سے اس کا ناطقہ بند کر دیا جائے گا عمران خان‘‘ آگیا تو فاشزم آ جائے گا اور وہ سب مخالفوں کو ٹکٹکی پر لٹکا دے گا۔

فوج نے علی امیں گنڈا پور کے خلاف چارج شیٹ کی تیاری شروع کر دی

اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات کے حوالے سےسینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں موجودہ حالات کے تناظر میں تحریک انصاف کو عام جبکہ مقتدرہ کو خاص سے موسوم کر کے ایک تخیلاتی مذاکرہ سامنے لے کر آئے ہیں۔ سہیل وڑائچ کے تخیلاتی مذاکرے کے مطابق عام یعنی پی ٹی آئی رہنما مقتدرہ کو کہتے ہیں کہ آپ کے دن گنے جا چکے، گر تی ہوئی دیوار کو بس ایک آخری دھکے کی ضرورت ہے، اب آپ اقتدار اور اختیار دونوں سے محروم ہو جائیں گے۔

جس کے جواب میں خاص یعنی مقتدرہ کہتی ہے کہ یہ آپ کی خوش فہمی ہے، آپ جتنی سازشیں کر رہے ہیں ہمارا عزم اتنا ہی مضبوط ہو رہا ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق عام کہتا ہے عدلیہ نے تمام تر دبائو کے باوجود میرے حق میں فیصلہ سنا کر ثابت کردیا ہے کہ آپ کے پلے کچھ نہیں رہا۔ اب آپ کے پرانے اتحادی بھی آپ کی نہیں سن رہے۔

جس کے جواب می خاص کہتا ہے کہ ہمیں سب علم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، سازش میں کون شریک ہے، کون فیصلے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور کس کے ڈانڈے کہاں جا کر ملتے ہیں، انتظار کریں سب کھل کر سامنے آ جائے گا۔

سہیل وڑائچ کے مطابق عام کہتا ہے کہ آپ کی مینجمنٹ عدلیہ کے حوالے سے مکمل ناکام رہی، اتنی بڑی شکست کے بعد آپ کو ہار مان لینی چاہیے، اب حالات بدل چکے ہیں۔

خاص جواب دیتا ہے کہ خدا کا خوف نہ ہو تو سب کچھ ویسے ہی ہوتا جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔ یہاں انصاف بھی نرمی سے نہیں ملتا، نرمی کو بزدلی سمجھا جاتا ہے۔

عام دہائی دیتا ہے کہ آپ نے کونسا ظلم نہیں کیا؟ جیلیں، جاسوسیاں، گرفتاریاں، چھاپے سب کچھ تو کر چکے لیکن جمہوری آواز دب نہیں رہی۔

خاص جواب دیتا ہے کہ ہم پر خدا کا خوف غالب رہا،نہ کسی کو قتل کیا، نہ جیل میں کسی پر تشدد ہوا۔ ظلم ہوتا تو پھر عدالتی فیصلے اتنے آزادانہ نہ آ رہے ہوتے۔ بلکہ اب تو فیصلے واضح طور پر ایک پارٹی کے حق میں آ رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق عام کہتا ہے کہ فیصلوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، اب طاقت خواص کے ہاتھوں میں نہیں رہی۔

خاص جواب دیتا ہے کہ طاقت تو طاقت ہوتی ہے ــ”POWER IS POWER” طاقت اپنے آپ کو لفظوں سے بیان نہیں کرتی اپنے عمل سے طاقت ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

عام کہتا ہےکہ دنیا بدل چکی اب نالج از پاور یعنی علم ہی اصل طاقت ہے۔ جبکہ BRUTAL POWER یعنی ظالمانہ طاقت کا تصور الٹ چکا۔

خاص جواب دیتا ہے کہ امریکہ طاقت کی وجہ سے سپر پاور ہے وہ اپنے مخالفوں کو اب بھی ظالمانہ طاقت سے ہی کچلتا ہے افغانستان اور عراق میں کیا ہوا؟

سہیل وڑائچ کے بقول عام کہتا ہے کہ تضادستان میں طاقت کے مراکز کمزور ہوچکے اب عدلیہ، عوامی حمایت سے مضبوط ہوچکی، منصف بھی ہیرو اور لیڈر بننا چاہتے ہیں انہیں بھی شہ سرخیوں میں اپنے بیانات پڑھ کر مزا آتا ہے۔

خاص جواب دیتا ہے کہ مقبولیت کا نشہ بڑے بڑوں کو خراب کردیتا ہے۔ افتخار چودھری مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہوئے تو نتیجہ کیا نکلا؟ نہ آئین کا کچھ چھوڑا، نہ عدلیہ کی ساکھ رہنے دی۔ یہی کچھ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے کیا؟یہ جج کہاں تھے پورے سیاستدان تھے جو سیاسی ایجنڈے کے تحت فیصلے دیتے رہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول عام کہتا ہے کہ پہلے تو آپ اور عدلیہ ایک ہوتے تھے افتخار چودھری کو بحال کروانے میں جنرل کیانی کا دبائو شامل تھا ،ثاقب نثار میں ہوا بھرنے میں جنرل باجوہ اور ایجنسیوں کا کردار تھا۔ ڈیم فنڈ میں مقتدرہ نے بھی ثاقب نثار کو جا کر چندہ جمع کروایا تھا ۔ ججوں کو شہرت اور طاقت کا نشہ تو آپ ہی نے لگایا ہے۔

خاص جواب دیتا ہے اب ہم غلطیوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہماری سیدھی اور سچی بات سمجھ نہیں آ رہی، جب سب غلط ہو رہا تھا تو پوری قوم تالیاں پیٹ رہی تھی، اب ہم ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو تنقید کے سارے تیروں کا رخ ہماری طرف ہے۔

سہیل وڑائچ کےمطابق عام کہتا ہے کہ مقبولیت نے 8 فروری کو اپنا فیصلہ دے دیا ،قبولیت آڑے آ رہی ہے اگر یہ معاملہ ایسے چلاتو عدلیہ قبولیت کے بت کو توڑ دے گی آپ حقائق سے دور تصورات کی دنیا میں بیٹھے فیصلے کر رہے ہیں گلی اور بازار میں ماحول بدل چکا ،اب لوگ خوف اور طاقت کی ہیبت کا طوق اتارنا چاہتے ہیں۔

خاص جواب دیتا ہے کہ عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آج ہم ’’اُسے‘‘ اقتدار میں لے آئیں تو معیشت ڈوب جائے گی ،انتقام کا سلسلہ جہاں رکا تھا وہاں سے شروع ہو کر انتہائوں تک جا پہنچے گا۔ گورننس کا جس طرح پہلے خانہ خراب ہوا تھا دوبارہ ہو جائے گا ،نئے بزدار اور نئے محمود خان آ جائیں گے، میڈیا کا گلا گھوٹنے کیلئے پھر سے اس کا ناطقہ بند کر دیا جائے گا اب تو پھر بھی تھوڑی بہت جمہوریت ہے، مخالفانہ آوازیں موجود تو ہیں، عدالتیں لوگوں کو رہا کررہی ہیں ’’وہ‘‘ آگیا تو فاشزم آ جائے گا سب مخالفوں کو ٹکٹکی پر لٹکا دیا جائے گا۔

سہیل وڑائچ کے بقول اس اعتراض پر عام کہتا ہے کہ یہ آپ کے اندر کا خوف ہے وگرنہ ’’وہ‘‘ ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ ایماندار ہے جس کا ہاتھ ہر وقت عوام کی نبض پر رہتا ہے ’’وہ‘‘ بہت کچھ سیکھ چکا ہے اس بار وہ آیا تو عوام کی طاقت سے تضادستان کو بدل دے گا مقتدرہ کی طاقت کو توڑ کر اختیار اور اقتدار دونوں عوام کے حوالے کر دے گا۔

جس پر خاص جواب دیتا ہے کہ اگر وہ بدل گیا ہوتا تو جیل میں بیٹھ کر مقتدرہ، میڈیا اور مخالفوں کو روزانہ گندی گالیاں کیوں دیتا؟ وہ بدل نہیں سکتا، یہی تو اصل مسئلہ ہے۔

جس پر عام کہتا ہے کہ آپ میں کہاں لچک ہے آپ بھی تو اڑے ہوئے ہیں جیل میں بیٹھ کر کیا وہ آپ کو دعائیں دے؟ بغیر کسی قصور کے کوئی جیل میں بند ہوگا تو اسے غصہ تو آئے گا ۔ پرندہ پنجرے میں پھڑپھڑائے نہ تو اور کیا کرے؟ اسے جیل سے باہر نکال کر اعتماد سازی کریں تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہو سکتا ہے۔

جس پر خاص نے جواب دیا کہ ہم نے راستہ کھولنے کی کوشش کی گنڈا پور کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی وہ ’’اسے‘‘ ملنے گیا تو اس نے جوتا اتار لیا ،اسے اپنی پارٹی کے جس لیڈر کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ہم سے ملا ہے یا اس کا ہم سے رابطہ ہے وہ اسے ملنے سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مقبولیت کا یرغمال ہو چکا ہے، وہ اصل حقائق سے آنکھیں چُرا چکا ہے۔

جس پر عام کہتا ہے کہ دیکھیں وہ باغی کبھی نہیں رہا۔ خارجہ پالیسی، مالیاتی پالیسی حتیٰ کہ داخلہ پایسی تک پر بھی وہ آپ کے ساتھ ایک صفحے پر تھا ،وہ تو جنرل باجوہ نے امریکی ایجنڈے کے تحت اسے نکال باہر کیا وگرنہ مقتدرہ کے ساتھ اس کا کیا اختلاف تھا؟

جس پر خاص جواب دیتا ہے کہ امریکہ والی بات تو سفید جھوٹ ہے۔ فیصلہ صرف جنرل باجوہ کا نہیں ساری مقتدرہ کا تھا اسی لئے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، اسی لئے جیل کی گاڑیاں پارلیمان ہائوس پہنچیں، مقتدرہ میں اس کی پسند کا چیف لانے دیا جاتا تو آج یہ ملک دنیا سے کٹ کر ڈیفالٹ ہو چکا ہوتا، یہاں فاشزم کی آندھیاں چل رہی ہوتیں اور ہم افغان طالبان جیسا طالبانی پاکستان بنا کر بیٹھے ہوتے، ہر طرف بزداروں کی حکومت ہوتی اور وہ اس تباہی پر نیرو کی طرح بیٹھا بانسری بجا رہا ہوتا۔

سہیل وڑائچ کے مطابق جس پر عام کہتا ہے کہ اس کے ساتھ عوام کی طاقت ہے، اسے روحانی پشت پناہی بھی حاصل ہے ،وہ دیانتدار ہے، کرپشن سے دور اور پاک صاف ہے، اسے فوج کی سیاست کا علم نہیں تھا، وہ ملا ہی صرف جنرل فیض سے تھا اسلئے اسے ہی لانا چاہتاتھا،وہ بزدار کے بارے میں جان گیا تھا اسی لئے وہ پرویز الٰہی کو لایا تھا۔

جس پر خاص جواب دیتا ہے کہ وہ ناقابل اعتبار اور نالائق ہے، اسے راستہ دینا خود کشی ہوگی۔

جس پر عام کہتا ہے کہ اس کا راستہ عوام، آئین اور عدلیہ بنائیں گے۔

جس پر خاص جواب دیتا ہےLET SEE: ، اصل فیصلےطاقت ہی کرتی ہے۔

Back to top button