عمران سوشل میڈیا سے عوامی انقلاب لانے میں کیوں ناکام ہوئے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کا نصرت جاوید نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اب تک سمجھ آ جانی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر آپ جتنے بھی مقبول ہو جائیں، اصل میں یہ ایک واہمہ ہے جس کے ذریعے عوامی انقلاب لانا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
روزنامہ نوائے وقت کے لیے اپنے تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عرصہ ہوا کسی محفل میں جائو تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’سوشل میڈیا نے پاکستان کو بدل کر رکھ دیا ہے‘‘۔ یہ فرمان سن کر میرا ذہن چند بنیادی سوالات اٹھانے کو مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے انتخابی نشان سے محروم ہو جانے کے باوجود تحریک انصاف 8 فروری 2024 کو سب سے بڑی جماعت بن کر قومی اسمبلی تک پہنچی تھی۔ واحد اکثریتی جماعت کے طور پر ابھرنے کے باوجود اسکا جائز و ناجائز بنیادوں پر دعویٰ ہے کہ ’’فارم47‘‘ کی وجہ سے اس کا مینڈیٹ ’’چوری‘‘ ہوا وگرنہ وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں آتی۔ لیکن واحد اکثریتی جماعت بن کر قومی اسمبلی میں پہنچنا بھی تحریک انصاف کی مدد نہیں کر پایا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان یقینا اس وقت ملک کے مقبول ترین سیاسی رہ نما ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی عوامی مقبولیت ان کی رہائی ممکن بنانے میں ناکام کیوں رہی ہے؟ اس سوال کا علمی تحقیق کے بعد لکھے کسی بھی مضمون یا کتاب میں جواب نہیں ملتا۔ عمران کے پروانوں کی جانب سے فقط ’’ریاستی جبر‘‘ کی داستانیں سناکر بات ختم کردی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان عالم فاضل لوگوں سے مالا مال ہے۔ ان میں سے چند ایک یوٹیوبرز کھڑکی توڑ رش لیتے ہیں۔ لیکن ان سے بھی مذکورہ بالا سوال کا جواب نہیں ملتا۔ تاہم سوشل میڈیا کے بارے میں چند کتابیں پڑھنے اور اپنے روزمرہّ تجربات سے گزرنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا ایک واہمہ ہے اور اس کے فریب میں گرفتار ہو کر ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں کیا جا سکتا۔
اپنا بارود خانہ خالی ہو جانے کے بعد عمران کے پاس کیا آپشن ہے
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میری اس سوچ کو ایک بھارتی جیل میں قید کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک نے اپنے حلف نامے کی چوتھی قسط میں برہان وانی کا ذکر کرتے ہوئے بہت تقویت پہنچائی ہے۔ اگر آپ کو یاد نہیں تو برہان وانی مقبوضہ کشمیر میں جولائی 2016 میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوا تھا۔ اس کے قتل کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی روز تک ہنگامے برپا رہے جن کے انجام پر 150شہری شہید ہوئے۔ سینکڑوں زخمیوں کے علاوہ درجنوں کشمیری ’’مرچ بموں‘‘ کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھے۔ یاسین ملک نے اپنے حلف نامے میں بے تحاشہ مثالوں سے واضح کیا ہے کہ ’’بھارت کے سکیورٹی گرڈ‘‘ نے 15 سال کی عمر میں گھر چھوڑنے والے برہان وانی نامی مجاہد کو جان بوجھ کر سوشل میڈیا کا ’ہیرو‘ بننے دیا۔ جولائی 2016 میں اس کی شہادت سے کئی برس قبل ہی اس کی تمام حرکات وسکنات کا بھارت کے سکیورٹی اداروں کو کامل علم ہوتا تھا۔ اس کا محفوظ ترین ’تھورایا‘ فون بھی انڈیا کے سکیورٹی اداروں کے لئے GPS کا کام کرتے ہوئے اس کی لوکیشن بتاتا رہا۔ لیکن اسے گرفتار کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اسکا جواب یاسین ملک نے اپنے حلف نامے میں دینے کی کوشش کی ہے۔ یاسین ملک نے برہان وانی پر بھارتی سکیورٹی اداروں کا ’کارندہ‘ ہونے کا الزام نہیں لگایا بلکہ سوشل میڈیا کی محدودات اور کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔ اس لیے عمران خان کو بھی اب تک سمجھ آ جانی چاہیے کہ سوشل میڈیا دراصل ایک واہمہ ہے جس کے ذریعے عوامی انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔
