عمران خان اقتدار کی خاطر ریاست دشمنی پرکیوں اترآئے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کی زیر قیادت تحریک انصاف اب ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ بے لگام شر پسندوں کا ٹولہ بن چکی ہے جس کا واحد مقصد ملک میں مسلسل فساد برپا کرنا ہے تاکہ معیشت کا جنازہ نکل جائے اور حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔ یعنی عمران یہ شرپسندی کچھ صرف اور صرف اقتدار کے حصول کے لیے کروا رہے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 24 نومبر کی ’’فائنل کال‘‘ پی ٹی آئی کی نگاہ میں اس لئے ناکام ونامراد نہیں ٹھہری کہ وہ ڈی۔چوک پہنچ کر اپنے عزائم کے خاکے میں رنگ نہیں بھرسکی۔ اُس کے نزدیک شکستِ کا نوحہ یہ ہے کہ حسبِ توقع ڈی چوک میں لاشیں نہیں گریں، خون نہیں بہا اور غارت گری نہیں ہوئی۔ پارٹی کے اندر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے اور منہ نوچنے کا تماشا ’’لاشوں‘‘ کی تعداد پر لگا ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے جھوٹ کی ایک دکان سجائی گئی اور ڈی چوک میں لاشوں کے اعداد و شمار دیے گئے۔ 26 نومبر کو ڈی چوک سے جوتیاں اٹھا کر فرار ہونے والوں نے 12 لاشوں سے لیکر 278 لاشوں کے دعوے کیے۔ ایسے میں جھوٹ کے پیغمبر گوئبلزکی روح نے سرگوشی کی کہ ’’لاشیں چھوڑو، کیو کہ یہ تمہیں ثابت کرنا پڑیں گی۔ تم یہ کہو کہ ہمارے ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔‘‘ لہذا اب یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔
عرفان صدیقی کا کہنا ہے احتجاج ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا کے 195 ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس میں پُرامن احتجاج کا حق تمام حدودوقیود سے آزاد ہو۔ شہری آزادیوں والے مہذب جمہوری ممالک نے ’’پُرامن احتجاج‘‘ کے حق کو نہایت کڑے ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے۔ جب بھی کسی مہذب جمہوری ملک میں کوئی جماعت یا تنظیم احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہے تو اُسے بیسیوں قانونی ضابطہ بندیوں سے گزر کر اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اجتماع کا مقصد کیا ہے؟ منتظمین کون ہیں؟ اُن کے مکمل کوائف کیا ہیں؟ احتجاج کتنے بجے شروع اور کتنے بجے ختم ہوگا؟
عرفان صدیقی کے بقول مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی احتجاج عام لوگوں کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ اب ذرا پی ٹی آئی کی ’’پُرامن فائنل کال‘‘ کو بھی دیکھیے۔ جان بوجھ کر 24 نومبر کی تاریخ اس لئے دی گئی کہ اُس دِن بیلا روس سے ایک بڑا وفد اور اس کے صدر پاکستان آرہے تھے۔ اس سے پہلے 15 اکتوبر کو اسلام آباد ’’امن مارچ‘‘ کے لئے وہ وقت چُنا گیا جب شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کے لئے سینکڑوں مندوب اسلام آباد میں تھے۔ اُس مارچ کے دوران، ایک پولیس اہلکار کو بہیمانہ تشدد کرکے شہید کردیاگیا۔ 24 نومبر کے ’’پُرامن احتجاج‘‘ کے لئے کسی بھی ملکی قانون کے تحت کسی بھی مجاز اتھارٹی کو، کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ کسی بھی عدالت سے اجازت حاصل نہ کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔
پشاور سے روانہ ہوتے وقت ’’پُرامن احتجاج‘‘ کا عزم کرتے ہوئے ’الجہاد الجہاد‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ سروں سے کفن باندھے گئے۔ ’’مارو یا مرجائو‘‘ کا جنگی سلوگن دیاگیا۔ صوبے کے انتظامی سربراہ نے کہا __ ’’ہم جارہے ہیں، اپنا مقصد پائیں گے یا مرجائیں گے۔ واپس نہ آئیں تو ہمارے جنازے پڑھ لیں۔‘‘ پھر اِسے ’پانی پت‘ کی جنگ قرار دیا۔ گاڑیاں برازیل ساختہ آنسو گیس کے شیلز سے بھری گئیں۔ جدید اسلحہ ٹھونسا گیا۔کیلوں جڑے ڈنڈے تقسیم کئے گئے۔ راستے کی ہر رکاوٹ اٹھا کر پھینک دی گئی۔ اٹک پہنچے تو پولیس پر یلغار کرکے 147 اہلکاروں کو زخمی کردیا جن میں سے درجن بھر جان کنی کے عالم میں ہیں۔ موٹر وے کی ہر علامت کو توڑتے پھوڑتے، پاس پڑوس کے نوزائیدہ درختوں کو آگ لگاتے، بپھرے ہوئے آتش فشانی لاوے کی طرح ڈی چوک کا رُخ کرتے ’’پُرامن‘‘ لوگوں نے ہر ریاستی قانون اور ضابطے کی دھجیاں اڑا دیں۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ گنڈا پور نے ٹول پلازے کا بیرئیر توڑ پھینکا۔ کسی گاڑی نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ احتجاجی کارواں کے شرکا نے جدید غلیلوں کے ذریعے بھی کئی کئی فرلانگ دور کھڑے اہلکاروں پر نوکیلے پتھر پھینکے۔ اِس احتجاجی قبیلے کا ایک ماضی بھی ہے۔ مثلاً تحریری معاہدوں اور یقین دہانیوں سے انحراف، آبپارہ کہہ کر شاہراہِ دستور پر ڈیرے ڈالنے، پی ٹی وی پر حملہ اور قبضہ، پارلیمنٹ ہائوس، ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس پر حملے، پولیس اہلکاروں پر سرِعام ظالمانہ تشدد، پٹرول بم اور سب سے بڑھ کر 9 مئی 2023، جب اڑھائی سو سے زیادہ فوجی تنصیبات روند ڈالی گئیں ، شہدا کے مزار اُدھیڑ دئیے گئے اور فضائیہ کے طیارے نذرآتش کردئیے گئے۔
اب پی ٹی آئی والوں کا بیانیہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ۔’’پُرامن سیاسی احتجاج ہمارا حق تھا لیکن ریاست نے قتلِ عام کر دکھایا۔‘‘ کوئی ایک معتبر دلیل تو دو کہ تم ملکی آئین وقانون کی پاس داری کرنے والے پُرامن سیاسی کارکن تھے؟ 26 نومبر کو ریاست نے بے مثل صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔ اپنے آئینی اختیار کو بھی بروئے کار نہ لائی۔ چار اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی کرا بیٹھی۔ اس پر بھی ہاہاکار مچی ہے۔ لمحہ بھر کو تصور کیجئے کہ ہر قسم کے نظم، کنٹرول اور کمانڈ سے عاری یہ فسادی اور انتشاری گروہ ریڈ زون میں داخل ہوجاتا تو کیا حشر بپا ہوتا، پہلو میں واقع اس پانچ ستارہ ہوٹل پر کیا گذرتی جس میں بیلاروس سے آئے معزز مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اب عمران خان نے اپنی اسلام اباد احتجاج کی ناکامی کے بعد 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ 10 سال پہلے سال 2014 میں بھی بڑی طرح ناکام ہوئی تھی۔ ایسے میں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ تحریک انصاف اب ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ شر پسندوں کا ٹولہ بن چکی ہے جو ملک کو اقتدار کی خاطر تباہ کرنے کے در پے ہے۔