عمران کے یوتھیے ٹرمپ کو پاکستانی صدر کیوں سمجھ بیٹھے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد ان سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں وابستہ کرنے والے یوتھیے بھول رہے ہیں کہ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں، پاکستان کے نہیں۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ پاکستان میں جنگل کا قانون نہیں چلتا اور ایک سزا یافتہ شخص عدالتی فیصلے کے بغیر جیل سے رہا نہیں ہو سکتا۔ لہازا تحریک انصاف والے ڈونلڈ ٹرمپ سے جو بھی امیدیں لگا رہے ہیںں وہ سراسر غیر حقیقی ہیں۔
معروف صحافی مجیب الرحمن شامی اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ 47ویں امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے 8 سال پہلے ہیلری کلنٹن کو شکست سے دوچار کیا تھانحالانکہ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان تھیں اور وزیر خارجہ کے طور پر اپنی دھاک بٹھا چکی تھیں جبکہ ٹرمپ ایک ارب پتی بزنس مین‘ سیاست میں نووارد‘ دل پھینک‘ اور منہ پھٹ تھے۔ عام تاثر یہی تھا کہ ہیلری انہیں بآسانی شکست دے ڈالیں گی لیکن معاملہ اُلٹ ہو گیا۔
ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچے تو انہوں نے بطور صدر اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ وہ کسی وقت کچھ بھی کہہ سکتے اور کچھ بھی کر سکتے تھے۔ ان کے اکثر معاونین ان سے بیزار تھے‘ وہ آج ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ بعد ازاں ٹرمپ نے بطور صدر جو اگلا لیکشن لڑا اس میں ضعیف العمر جوبائیڈن نے انہیں چاروں شانے چت گرا دیا۔ لیکن ٹرمپ نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کر کے امریکی سیاست کو ایک نیا رنگ دے ڈالا‘ ان کے پُرجوش حامی ایوانِ نمائندگان پر حملہ آور ہو گئے جن میں سے کئی کو جیل بھیج دیا۔
کئی الزامات لگے‘ کئی مقدمات قائم ہوئے‘ فردِ جرم بھی عائد ہو گئی لیکن وہ کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ان کا تحفظ کیا‘ انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے روکا نہ جا سکا‘ وہ میدان میں آئے‘ جوبائیڈن نے دستبرداری اختیار کر لی اور اپنی نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کر دیا۔
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ابتدا میں تو یہ تاثر عام تھا کہ کملا ہیرس ٹرمپ کو لے بیٹھیں گی۔ رائے عامہ کے جائزوں میں وہ آگے بڑھتی نظر آئیں لیکن پھر ٹرمپ نے اپنا آپ منوانا شروع کر دیا۔ ان پر قاتلانہ حملے نے ان کی مہم میں نئی جان ڈال دی۔ وہ زخمی ہو کر بھی کھڑے فتح کا نشان بناتے رہے۔ سٹیج چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ ان کی مضبوط شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ٹرمپ کے حامی بہت کم تھے۔ اسٹیبلشمنٹ ان سے نالاں تھی‘ رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی برتری کا تاثر نہیں تھا‘ اس سب کے باوجود انہوں نے میدان مار کر سب کو حیران کر دیا۔ پاپولر ووٹ بھی زیادہ حاصل کیے اور الیکٹورل ووٹ بھی زیادہ۔ وہ دوسرے ایسے صدر بن گئے جو چار سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے اسباب کیا ہیں اور نتائج کیا برآمد ہوں گے‘ دنیا بھرکے سیاسی پنڈت اس کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مختلف الخیال ووٹروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ مسلمان ووٹروں
کی بھاری تعداد اُن سے غزہ میں جنگ بندی کی اُمید لگا رہی ہے تو نیتن یاہو بھی ان سے توقعات لگائے ہوئے ہیں۔ گورے امریکی ان پر فدا ہیں تو کالے بھی ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد ان کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہے تو نریندر مودی بھی انہیں مبارک باد پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ غیرقانونی طور پر امریکہ میں رہنے والوں کو البتہ خوف لاحق ہے‘ ڈیموکریٹک پارٹی کی ”آزاد خیالی‘‘ اور اخلاقی اقدار سے عدم دلچسپی نے بھی اس کا راستہ کھوٹا کیا ہے۔
مجیب شامی کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں امریکی انتخابات کی بھرپور کوریج کی گئی۔ ٹی وی چینلز نے لائیو کوریج کا اہتمام کیا‘ دن رات خبریں اور تجزیے نشر ہوتے رہے۔ پاکستان سے کئی میڈیا پرسنز خصوصی کوریج کیلئے امریکہ پہنچے تو امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد دانشور بھی سکرینوں پر چھائے رہے۔
پاکستانی سیاستدان بھی ایک دوسرے سے اُلجھے رہے‘ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ٹرمپ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں اور اس جماعت کے کئی مخالفین ٹرمپ کو اپنا مخالف سمجھ بیٹھے تھے۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور ان کے ذریعے عمران خان کی رہائی کے خواب دیکھ اور دکھلا رہی تھی۔
تحریک انصاف کے جملہ متعلقین و متوسلین کو اُمید ہے کہ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کیلئے کردار ادا کریں گے جبکہ حکومتی حلقے اسے خوش فہمی قرار دے کر اپنے حامیوں کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف والوں کو شاید یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ٹرمپ امریکہ کے نہیں بلکہ پاکستان کے صدر بنے ہیں۔