زرق برق لباس پہننے والی مریم نواز نے اچانک سادگی کیوں اپنا لی؟

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ چند روز سے مریم نواز وہ نہیں رہیں جو وہ پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز مکمل طور پر بدل گئی ہیں۔ نہ اب وہ زرق برق لباس زیب تن کرتی ہیں، اور نہ ہی بھاری میک اپ کرتی ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں مریم نواز نے وہ کر دکھایا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

عمار مسعود کے مطابق اب لوگ اس مریم نواز کو جانتے ہیں جو مصیبت زدگان کی مدد کو ہر لمحہ تیار رہتی ہے۔ اب مریم نواز مشکل میں پھنسے لوگوں کو گلے لگاتی ہے۔ اب اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہے۔ ننگ دھڑنگ بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے۔ اب نہ ان کا لباس زرق برق ہے نہ اپنی امارت کا کوئی احساس۔ سر پر معمولی سی چادر لیے، بغیر پروٹوکول کے عوام کی خدمت میں جتی مریم نواز اب واقعی بدل گئی ہیں۔

عمار مسعود اپنی تحریر میں کہتے ہیں کہ اب مریم نواز کو پرٹوکول کی کوئی پرواہ نہیں، اسے صرف پنجاب کے عوام کی فکر ہے۔ مریم نواز اپنی ساری ٹیم کو مصیبت زدگان کی خدمت پر مامور رکھتی ہے۔ وہ پورے پنجاب میں ہر جگہ لوگوں کی خدمت کرنے کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ مریم نواز نہیں ہے جس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی۔ جس کے منہ میں سونے کا چمچہ اور تن پر زرق برق لباس تھا۔ یہ وہ مریم نواز ہے جو عوام کی خادم ہے۔ پنجاب کی محافظ ہے۔ اب اس کا ایک ایسا نیا روپ سامنے آیا ہے جس میں وہ نواز شریف کی بیٹی تو ہے مگر بیگم کلثوم نواز کے سب وصف لے کر عوام کی خدمت کررہی ہے۔ اب وہ اپنی ذات، خاندان، عیش و عشرت سے ماورا ہو گئی ہے۔ یقین مانیے مریم نواز اب بہت بدل گئی ہے۔ مریم نواز چند دنوں میں ہی بہت بدل گئی ہے۔

عمار مسعود کے بقول مریم نواز کو جاننے کے کئی طریقے ہیں۔ آپ ان کو نواز شریف کی بیٹی کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ یہ اس خاندان کی فرد ہیں جہاں والد وزیر اعظم، چچا وزیر اعلیٰ اکثر دیکھے گئے۔ پورے ملک کی سیاسی قیادت ان کے گھر عموماً آتی رہی۔ دنیا بھر کےسربراہان مملکت کے ان کے خاندان سے رابطے رہے۔ کتنے ہی وزرا اعظم خود چل کر ان کے گھر آئے۔ کتنے غیر ملکی وفود سے بچپن میں ہی ان کی ملاقات رہی۔ کتنی ہی سیاسی تحریکوں نے ان کے گھر سے جنم لیا۔ کتنے ہی سیاسی مدوجزر انہوں نے بچپن میں دیکھ لیے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے آپ انہیں ان کے دادا کے حوالے سے جانیں جو پاکستان کے سب سے بڑے انڈسٹریلسٹ تھے۔ جن کے کاروبار کا شمار نہیں تھا۔ اتفاق ایسا نام تھا جس پر سب متفق تھے۔ لاہور اتفاق فیکٹری کی سرحد سے شروع ہوتا تھا۔ اس مریم نواز کا بچپن ناز و نعم میں گزرا تھا۔ یہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئیں۔ ان کی زندگی میں عسرت و غربت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ ان کی زندگی میں پیسے کی فروانی تھی۔ دولت کی ریل پیل تھی۔

مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ انہیں ان کے بچپن سے پہچانیں۔ مریم نواز کبھی سیاست میں آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے والد، والدہ، چچا اور کزن نے جو مشکلات سہیں اس کے بعد ان کی کوئی دلچسپی اس مضمون میں نہیں رہ گئی تھی۔ وہ ایک عام خاتون کی طرح زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ گھر بار، بچے سنبھالنا چاہتی تھیں۔ سیاست میں ان کی دلچسپی اپنے والد تک تھی، اور یہ انکے لیے کافی تھا ۔ والد ہی ان کی سوچ کا محور تھے۔ عمار مسعود کہتے ہیں کہ مریم کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کو جیل میں ملتے جہاں سے مریم نواز کی زندگی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ جیل کے دنوں میں اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہو تو آپ جان سکتے ہیں کہ انہیں جیل کی تکالیف پریشان نہیں کرتی تھیں۔ وہ بڑے استقلال کے ساتھ ظلم و ستم کا مقابلہ کرتی تھیں۔

عمران خان کے دور میں مریم کے باتھ روم میں کیمرے لگوا دیے گئے۔ ان سے جانماز چھین لی گئی۔ رست 12 بجے جب وہ شب خوابی کے لباس میں ہوتیں تو نیب کے 15-15 اہلکار ان کے جیل سیل میں داخل ہو کر اپنے موبائلز پر انکی وڈیوز بناتے۔ اور سب سے زیادہ اذیت ناک بات کہ جب مریم نواز کی والدہ بیگم کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں تب بیٹی کی ماں سے بات تک نہیں کروائی گئی۔ آنے والے سانحے کی سب کو خبر تھی۔ اس موقع پر جیل سپرٹینڈینٹ سے کس طرح ایک بیٹی نے درخوست کی ہو گی یہ ہر بیٹی والا سمجھ سکتا ہے۔ لیکن بات نہیں کروائی گئی۔ ماں دنیا سے چلی گئی قلق دل میں رہ گیا۔ آخری مرتبہ آواز سننے کی حسرت عمر بھر کے لیے رہ گئی۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اگر اپ مریم نواز کو جاننا چاہیں تو انہیں اس دور کے حوالے سے جان سکتے ہیں جب عمران خان اور ان کے حواریوں نے ان پر اور ان کے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ جب نواز شریف جیل میں تھے اور پارٹی خاموش ہو کر کسی سانحے کا انتطار کر رہی تھی۔ کوٹ لکھپت جیل کے باہر 200 لوگ بھی احتجاج کے لیے جمع نہیں ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کے پلیٹلٹس کم ہونے کی خبریں ٹی وی سکرینوں پر چل رہی تھیں۔ کوئی عمران خان کے ظلم کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ تب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ اس وقت ہم نے مریم نواز کا ایک اور روپ دیکھا۔ وہ لڑکی جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی، کسی شیرنی کی طرح اپنے باپ کی زندگی کے لیے دھاڑتی تھی۔ جو کچھ اس زمانے میں اس کے بس میں تھا، مریم نواز نے کیا۔ نواز شریف کی جان بچانے کا سہرا صرف اور صرف مریم نواز کو جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا مطمحِ نظر صرف نواز شریف ہو گئے تھے۔ اسے نہ گرفتاری کا ڈر تھا نہ دورِ عمران خان کے جبر کا خوف۔ انہوں نے اس زمانے میں تن تنہا اپنے باپ کی زندگی کی جنگ لڑی۔

عمار مسعود کہتے ییں کہ مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ان کو سیاست دان کی حیثیت سے جانیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اب مریم نواز کے سوا کچھ زیادہ نہیں بچا۔ ہر الیکشن مہم اب انہی کو چلانا پڑتی ہے۔ ہر جرأت مندانہ اقدام کے لیے نگاہیں ان پر پڑتی ہیں۔ جب مریم نواز وزیر اعلیٰ بنیں تو کچھ خدشات لوگ کے ذہنوں میں تھے۔ لوگوں کو لگتا تھا ناز و نعم میں پلی یہ خاتون اپوزیشن میں تو احتجاج کر سکتی ہے مگر صوبہ نہیں چلا سکتی۔ شروع میں اعتراضات بڑھے ۔ لوگوں نے ان کے قیمتی ملبوسات میچنگ پرس اور جوتوں پر جملے کسے۔ جس طرح وہ عوام میں گھل مل جانے سے اجتناب کرتی تھیں اس پر باتیں کیں۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ مریم نواز بدل گی۔ اب نہ وہ زرق برق لباس ہے اور نہ ہی وہ بھاری میک اپ۔ لہذا امید کی جانی چاہیے کہ مریم نواز واقعی بدل گئی ہیں۔

Back to top button