نون لیگ پنجاب کےایم پی ایزمریم نواز سے تنگ کیوں آ گئے؟

مسلم لیگ ن کے اپنے اراکین اسمبلی بھی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے طرز حکمرانی سے عاجز آ گئے، اپنے کام نہ ہونے پر لیگی اراکین نے پارٹی قیادت کے سامنے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ لیگی اراکین اسمبلی کے مطابق مریم نواز نہ تو خود اراکین اسمبلی سے ملاقات کرتی ہیں اور نہ ہی ڈپٹی چیف منسٹر مریم اورنگزیب اراکین اسمبلی کو کوئی مثبت جواب دیتی ہیں، جس کے بعد لیگی اراکین کو اپنے کام کروانے کیلئے سپیکر آفس کی جانب دیکھنا پڑتا ہے تاہم سپیکر ملک احمد خان کی بارہا مداخلت اور یقین دہانیوں کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز لیگی اراکین اسمبلی سے ملنے سے اور ان کے کام کرنے سے انکاری ہیں جس پر اب نون لیگی اراکین کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ہے۔اپنے حلقوں کے ترقیاتی کام نہ ہونے،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے رابطے میں مشکلات اور بیوروکریسی کی جانب سے ٹھینگا دکھائے جانے کے بعد جہاں ایک طرف ناراض لیگی اراکین اسمبلی نے اپنا الگ گروپ بنا لیا وہیں اپنے تحفظات قائد مسلم لیگ نون میاں نواز شریف اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے لیگی اراکین اسمبلی کے تحفظات سامنے آ رہے تھے، لیگی اراکین کا کہنا ہے کہ ان کی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے ان سے اپنے حلقوں کے کام کرانا تو کجا وزیر اعلیٰ کا سٹاف لیگی اراکین کی وزیر اعلیٰ سے ملاقات تک نہیں کرواتا۔ ذرائع کے مطابق جب اس حوالے سے لیگی اراکین کے اعتراضات اور تحفظات میں شدت آئی تو مریم نواز نے خود اراکین اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کی بجائے سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لیگی اراکین اسمبلی سے رابطے میں رہیں اور ان کے کام کروانے میں معاونت کریں تاہم مریم اورنگزیب کچھ عرصہ تو لیگی اراکین کی اس حوالے سے سہولتکاری کرتی رہیں تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے بھی لیگی اراکین کی کالز اور میسجز کا جواب دینا چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے شکایات بڑھنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے معاون خصوصی ذیشان ملک کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں تاہم وہ بھی لیگی اراکین اسمبلی کے کام کروانے میں ناکام رہے جس کے بعد اب لیگی اراکین نے اپنے تحفظات اور شکایات پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کابینہ 16 اراکین پر مشتمل ہے اور 5 معاون خصوصی ہیں۔ کابینہ میں 7 وزرا کا تعلق لاہور سے جبکہ باقی 9 وزرا کا تعلق پنجاب کے دوسرے اضلاع سے ہے۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں 205 ایم پی ایز ہیں۔

لیگی ایم پی ایز نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا پنجاب اسمبلی کے اندر لاہور سے تعلق رکھنے والے 5 اراکین پنجاب اسمبلی سمیت 60 سے 70 کے قریب ایم پی ایز ایسے ہیں جو مریم نواز کی طرز حکمرانی سے کافی پریشان ہیں۔ لیگی ایم پی ایز کے مطابق پنجاب میں کسی رکن اسمبلی کا کوئی کام نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے اراکین کافی ناراض اور غصے میں ہیں۔ پہلے حکومت کی جانب سے کہا کہ ن لیگ کے ایم پی ایز کے جو مسئلے مسائل ہوں گے وہ سینیئر منسٹر مریم اورنگرزیب حل کریں گی مگر کچھ عرصہ بعد انہوں نے ایم پی ایز سے ملنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ذیشان ملک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ لیگی ایم پی ایز کے مسائل کو دیکھیں گے مگر جب ذیشان ملک کو مسائل بتائے گئے تو وہ بھی حل کروانے میں ناکام رہے کیونکہ ان کے پاس معاون خصوصی کا عہدہ تو ہے لیکن اختیارات نہیں ہیں، لیگی اراکین کے مطابق اگر ہمارے کام نہیں ہونگے اور ہم ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں گے تو اگلی بار اپنے حلقوں میں ووٹ کیسے مانگنے جائیں گے کیونکہ حلقے کے عوام کو وزیر اعلیٰ یا سینئر صوبائی وزیر نے نہیں ہم نے جواب دینا ہے

لیگی ایم پی ایز  کے مطابق پنجاب کی 16 رکنی کابینہ اسمبلی اجلاسوں میں آنا پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایم پی ایز نے بھی اجلاسوں میں شرکت کم کر دی ہے کیوں کہ جب وزیراعلیٰ مریم نواز خود ہی ایوان کو اہمیت نہیں دیتی تو پھر سینیئر منسٹرز ہو یا منسٹرز وہ کیسے اس ایوان کو اہمیت دیں گے۔لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ جو تھوڑے بہت لوگ اسمبلی آتے ہیں وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی وجہ سے آرہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے سب کے لیے دروازے کھولے ہوئے ہیں۔ تھوڑے بہت کام اسپیکر آفس سے ہو جاتے ہیں مگر جو کام وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہونے چائیے وہ نہیں ہو رہے۔

ایک لیگی ایم پی اے نے بتایا کہ جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے انکے ساتھ وزیر قانون رانا ثناء اللہ تھے، شہباز شریف اگرچہ نہیں ملتے تھے لیکن رانا ثناء اللہ ان کی جگہ موجود ہوتے تھے اور طاقتور وزیر تھے، اراکین کے جو مسئلے مسائل ہوتے وہ حل کرتے تھے، شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ بھی عموماً موجود ہوتے تھے جس سے اراکین کو کافی ریلیف مل جاتا تھا۔ لیکن مریم نواز کا طرز حکمرانی مختلف ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز خود بھی اراکین اسمبلی سے ملنا پسند نہیں کرتیں جبکہ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب بھی خود کو ڈپٹی چیف منسٹر سمجھتے ہوئے ایم پی ایز سے ملاقات سے انکاری ہیں۔  وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پرنسپل سیکریٹری ساجد ظفر ڈال تو عوامی لوگوں کی بات ہی نہیں سنتے، اراکین کی جانب سے متعدد شکایات پرنسپل سیکریٹری کے حوالے سے لگائی گئی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ جس پر اراکین اسمبلی کو بڑے تحفظات ہیں۔

لیگی ایم پی ایز  کے مطابق 60سے 70 دیگر لیگی اراکین کی طرح بزرگ ایم پی ایز نے بھی پنجاب اسمبلی میں اپنا گروپ بنا رکھا ہے جس کی قیادت سابق اسپیکر رانا محمد اقبال کرتے ہیں۔ رانا محمد اقبال بھی اپنے کاموں کے سلسلے میں اسپیکر آفس کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں کیونکہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ان کو نہیں سنا جاتا۔ ناراض لیگی اراکین اسمبلی کے مطابق قیادت نے اس حوالے سے اراکین اسمبلی کی شکایات کا ازالہ نہ کیا تو آنے والے دنوں میں نون لیگ کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Back to top button