پاکستان دشمن ٹی ٹی پی جنگجوؤں نے جنوبی پنجاب میں ڈیرے کیوں لگالئے؟

افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کو ڈنڈا دینے کے بعد دہشتگردوں نے پنجاب کا رخ کر لیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔ جس کے بعد کچے کے ڈاکوؤں کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کچے کے علاقے راجن پور، رحیم یار خان، سکھر، اور گھوٹکی کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پر دہشت گردوں اور ڈاکوؤں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجودہیں، اس وقت جنوبی پنجاب میں پولیس کو دوہرے خطرات کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ کچے کے ڈاکووں سے نبرد آزما ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں نے ان کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔جہاں سے اب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی جانب سے علاقے کی جغرافیائی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے
خیال رہے کہ گزشتہ ایک سال سے جنوبی پنجاب کی پولیس چوکیاں دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، ایک سال میں جنوبی پنجاب کی پولیس چوکیوں اور تھانوں پر کم از کم 6 بڑے دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ چھوٹے حملوں کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔یہ حملے زیادہ تر میانوالی، راجن پور، اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ علاقوں میں ہوئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان حملوں میں 22 پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ کم از کم 35 سے زائد زخمی ہوئے۔ تاہم پنجاب حکومت سب اچھا کی رپورٹ دیتی دکھائی دیتی ہے۔ حکام کے مطابق جنوبی پنجاب میں حالات کنٹرول میں ہیں اور اب تک ہونے والے تمام دہتشگردانہ حملوں کو پولیس ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعد جنوبی پنجاب دہشت گردی کا نیا محاذ بن رہا ہے، اور اس کی وجوہات گہری اور کثیر الجہتی ہیں سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ’ٹی ٹی پی کی حکمتِ عملی اب چھوٹے، تیز حملوں پر مرکوز ہے جن کا مقصد پولیس کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنا اور مقامی آبادی میں خوف پھیلانا ہے۔‘ماہرین پولیس کی ناکامی کو انٹیلی جنس کی کمی سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق’پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ میں خلا ہے، جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی دراندازی کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔‘ دوسری جانب کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ ایک نیا خطرہ بن چکا ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد ڈاکوؤں کو بطور سہولت کار استعمال کر رہے ہیں، جو مقامی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق کچے کے علاقوں میں ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ اغوا برائے تاوان اور منشیات کی سمگلنگ ہے جو ڈاکوؤں کے تعاون سے چلتا ہے۔‘ان کے مطابق پولیس کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کو الگ الگ خطرات کے طور پر دیکھتی ہے، جبکہ حقیقت میں دونوں کے درمیان عملی تعاون بڑھ رہا ہے۔
تاہم دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے بقول ’جنوبی پنجاب کی سرحد، خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ علاقے، ٹی ٹی پی اور اس کے ذیلی دھڑوں جیسے تحریک جہاد پاکستان کے لیے سٹریٹجک اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ علاقے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملحق ہیں، جہاں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے موجودہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ان دہشتگرد دھڑوں نے2021 کے بعد سے افغان طالبان کے اقتدار سے فائدہ اٹھایا، امریکی ساختہ ہتھیار لیے اور تربیت حاصل کی، اور اپنی حکمت عملی کو بہتر بنایا اور اب انھوں نے افغان طالبان کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد پنجاب کا رخ کر لیا ہے۔عائشہ صدیقہ کے مطابق ان دہشتگرد گروپوں کو روکنے میں پولیس کی ناکامی کا بنیادی سبب اس کا ’ری ایکٹو نقطہ نظر‘ ہے: ’پولیس حملوں کا جواب دیتی ہے لیکن پیشگی انٹیلی جنس اور سرحدی نگرانی کی کمی انہیں کمزور کرتی ہے۔‘
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق 2024 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا اور جنوبی پنجاب اس لہر کا نیا مرکز بن کر سامنے آیا ہے۔’ناکافی فنڈنگ، ناقص تربیت، اور مقامی آبادی کے خوف کی وجہ سے پولیس اس دراندازی کو روکنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ۔
تاہم آئی جی پنجاب آفس کا کہنا ہے کہ پولیس سرحدی چوکیوں پر دہشتگردانہ حملوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔’میانوالی اور راجن پور میں سی سی ٹی وی، موشن سینسرز، اور ڈرون نگرانی متعارف کروائی گئی ہے۔ اسی طرح سی ٹی ڈی نے خصوصی تربیتی کورسز شروع کیے ہیں، جن میں دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی شامل ہے۔‘ حالیہ برسوں میں پولیس کی استعداد بہتر کرنے خاص طور پر جنوبی پنجاب میں دہشت گردی اور ڈاکوؤں کے دوہرے محاذ سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔آئی جی آفس کے مطابق پولیس نے ڈرون ٹیکنالوجی کو کچے کے علاقوں میں آپریشنز کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے جو رات کے وقت نگرانی اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنے میں مدد دیتی ہے۔