آئی ایم ایف امیروں کی بجائے صرف غریبوں پرٹیکس کیوں لگواتاہے؟

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی سفارشات پر تیار کئے گئے وفاقی بجٹ سے جہاں عوام کا کباڑہ نکلنے والا ہے وہیں دوسری جانب حکومت کی جانب سے اشرافیہ پر نوازشات کا سلسلہ جاری ہے جہاں کبھی اراکین اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں و مراعات میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور کبھی سپیکر اور چئیرمین سینٹ کی تنخواہ چھ سو فیصد بڑھا دی جاتی ہے تاہم جب عام آدمی ریلیف مانگتا ہے تو انتہائی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے آئی ایم ایف اجازت نہیں دے رہا لیکن جب اشرافیہ پر قومی خزانہ لٹانے کی باری آتی ہے تواس پر نہ حکومت کوئی رکاوٹ بنتی ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف کوئی اعتراض کرتا ہے؟
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئی ایم ایف صرف عوامی ریلیف کی راہ میں ہی کیوں روڑے اٹکاتا ہے۔ اشرافیہ پر وسائل لٹانے سے اسے کوئی فرق کیوں نہیں پڑتا؟
ناقدین کے مطابق پاکستان میں تنخواہوں کا معاملہ ہو یا پینشن کا، بجلی کے بل ہوں یا پیٹرول کی قیمتیں، خلق خدا جب ریلیف کیلئے دہائی دیتی ہے تو حکام دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ وزیر اعظم تو عوام کے غم میں دبلے ہوتے جا رہے ہیں اور عوامی خوشیوں کے لیے وہ اپنے تن کے کپڑے تک بیچنے کو تیار ہیں لیکن برا ہو اس آئی ایم ایف کا، وہ نہیں مان رہا۔ قوال اور ہمنوا تان پر تان اٹھاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا، بجلی مہنگی کرنا پڑی۔ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا پیٹرول پر ٹیکس لگانا پڑا۔ آئی ایم ایف کا دباؤ تھا چھوٹی گاڑی دو لاکھ مہنگی کر دی گئی، آئی ایم ایف کا دباؤ تھا سولر پر بھاری ٹیکس لگانا پڑ گئے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ یہ آئی ایم ایف اشرافیہ کے مال غنیمت پر سوال کیوں نہیں اٹھاتا ؟ اس کے سارے اعتراضات کیا عام آدمی کی خوشیوں کو چاٹنے کے لیے رہ گئے ہیں؟
مبصرین کے مطابق آئی ایم ایف اس وقت ناراض کیوں نہیں ہوتا جب سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سسینیٹ کی تنخواہوں میں 600 فی صد اضافہ کر دیا جاتا ہے؟آئی ایم ایف اس وقت حکومت کی سرزنش کیوں نہیں کرتا جب اراکین پارلیمان خود ہی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافہ کر لیتے ہیں؟وزیر اعظم ہاؤس کے افسران کے لیے جب چار چار اضافی تنخواہیں منظور کی جاتی ہیں اور اس کے لیے بنکوں سے اربوں روپے قرض لیا جاتا ہے، اس وقت آئی ایم ایف کیوں اعتراض نہیں کرتا؟سپریم کورٹ کے ملازمین کو ہر سال تین اضافی مکمل تنخواہوں پر آئی ایم ایف کیوں معترض نہیں ہوتا؟
ناقدین کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کے لیے نو کروڑ روپے رکھے جا رہے ہیں ، یہاں کی ڈسپنسری کے نام پر 1 کروڑ 44 لاکھ مختص کئے جا رہے ہیں اور اس شاہی محل کے باغیچے کے لیے 4 کروڑ 48 لاکھ روپے مختص کیے گئے ییں، کیا آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ اراکین قومی اسمبلی جس سرکاری لنگر پر شکم زن ہیں اس میں ان کے لیے بھاری بھرکم تنخواہوں کے علاوہ آفس مینٹیننس، فون الاؤنس، ایڈ ہاک ریلیف، ہاؤسنگ الاؤنس، تاحیات بلیو پاسپورٹ، کنوینس الاؤنس اور جانے کون کون سی لذیذ ڈشیں رکھی جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے کبھی اس لنگر خانے پر اعتراض نہیں کیا؟
مبصرین کے مطابق عوام کو ریلف کی فراہمی سے انکار کرنے والی حکومت کیا یہ بتائے گی کہ چیف سیکرٹری کو ریٹائر منٹ پر جو ہائی کورٹ کے جج کے برابر مراعات دی جاتی ہیں اس حکم نامے پر آئی ایم ایف کو کیسے مطمئن کیا جاتا ہے؟سپریم کورٹ کے جج صاحبان اپنی غیر معمولی تنخواہ کا قریب 80 فی صد پینشن وغیرہ کی شکل میں لیتے ہیں، آئی ایف نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا؟کیا کبھی آئی ایم ایف نے پوچھا کہ ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کا تناسب دنیا میں کیا ہے اور پاکستان میں کیا ہے؟کیا آئی ایم ایف نے کبھی یہ سوال کیا کہ ریٹائرڈ جج کو دو ہزار بجلی کے یونٹ مفت کیوں ملتے ہیں اور ماہانہ تین سو لیٹر پیٹرول کیوں دیا جاتا ہے؟حکومت کو عوام کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جب قائم مقام صدر پاکستان نے گذشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے ہاؤس رینٹ میں 500 فی صد اضافہ کیا تو کیا آئی ایم ایف نے کوئی شکوہ کیا؟ جب سپیریئر جوڈیشل الاؤنس بڑھا کر 10 لاکھ 90ہزار کر دیا گیا تو کیا آئی ایم ایف نے کوئی اعتراض اٹھایا؟کیا آئی ایم ایف نے کبھی پوچھا کہ امریکی صدر تو 147 کنال کے وائٹ ہاؤس میں رہے لیکن تمہارے جیسے غریب ملک کے شہر سرگودھا کا کمشنر 104 کنال کے سرکاری محل میں کیوں رہتا ہے؟
مبصرین کے مطابق صنعت کاروں کو جب 140 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور 340 ارب روپےکے قرضے معاف کیے گئے تو اس وقت آئی ایم ایف نے سوال کیوں نہیں اٹھایا؟آئی ایم ایف نے کبھی یہ کیوں نہیں پوچھا کہ تم جیسے غریب ملک میں افسر شاہی کو اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے سٹاف سے 12 فی صد زیادہ کیوں ہے؟ ناقدین کے مطابق بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے عوام پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے والی آئی ایم ایف حکومت پر یہ دباؤ کیوں نہیں ڈالتی کہ صرف اسلام آباد میں بیوروکریسی کے محلات کا رقبہ 864 ایکڑ ہے، اسے نیلام کر کے وہاں کمرشل استعمال کے لیے عمارات تعمیر کر لیں؟
ناقدین کے بقول اصل سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہماری بے رحم اشرافیہ کا سہولت کار ہے یا یہ اشرافیہ اپنی واردات کے جواز کے طور پر آئی ایم ایف کو بطور بہانہ پیش کرتی ہے؟تاہم حقیقت میں کہانی بہت سادہ اور واضح ہے کہ بجٹ وہ نامبارک چاند ماری ہے جس کے بہانے اشرافیہ آئی ایم ایف کا نام استعمال کرتے ہوئے غریب کا پیٹ کاٹ کر اپنی پلیٹ رکھ لیتی ہے۔