کیا عمران خان کے حامی کی بسائی دنیا سے باہر نکلیں گے؟

وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے ایک مرتبہ پھر جیل توڑ کر عمران خان کو باہر لانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور پچھلے 30 ماہ سے اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کی اگلے 30 ماہ میں بھی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ گنڈا پور کا یہ اعلان بھی تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو ماموں بنائے رکھنے کا ایک حربہ ہے جس کے ذریعے انہیں مسلسل خان کی رہائی کی ایک تاریخ دے دی جاتی ہے تاکہ ان کی امید زندہ رہے ۔
ماہرِین بشریات کے مطابق، ایک بار جب لوگ کسی جھوٹ پر یقین کرنا شروع کردیتے ہیں تو اپنی سوچ سے متصادم شواہد سامنے آنے کے باوجود ان کے ذہن تبدیل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ لوگ جھوٹ پر مبنی انفارمیشن کو توڑ مروڑ کر اسے اپنی سوچ اور خواہش کے مطابق نیا رنگ دے دیتے ہیں اور خود کو دھوکہ دیتے ہوئے اسی کو سچ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ایک بار جب جھوٹ کو تسلیم کرلیا جائے تو مستقبل میں دماغ مزید جھوٹ قبول کرنے کا عادی بن جاتا ہے۔ یعنی ایسے لوگ صرف وہی بات مانیں گے جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں، چاہے حقیقت کچھ بھی ہو؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے کچھ ایسی ہی صورت حال تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کی ہے جنہوں نے جھوٹ کی ایک دنیا بسا رکھی ہے اور خود کو مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ پچھلے ڈھائی برس سے مسلسل عمران خان کی جلد رہائی کا امکان ظاہر کر رہا ہے، حالانکہ 30 ماہ سے ایسا ہو نہیں پایا۔ عمران خان کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی مسلسل ان کی فاتحانہ رہائی کی تاریخیں دے رہے ہیں لیکن ان کی یہ مصدقہ خبر ابھی تک عملی صورت اختیار نہیں کر سکی۔ اس سب کے باوجود خان صاحب کے حامی انکی رہائی کی نئی تاریخیں دینے کا سلسلہ جاری رکھنے سے باز نہیں آتے۔
جب وہ تاریخ بھی کسی پیش رفت کے بغیر گزر جاتی ہے تو پھر خان کے حامی نئی انفارمیشن کی بنیاد پر یہ قیاس کرتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت تو عمران خان کو رہا کرنے کے لیے بے چین ہیں لیکن وہ خود باہر آنے سے انکاری ہیں کیونکہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کوئی گھٹیا ’ڈیل‘ نہیں کرنا چاہتے۔ اس حوالے سے ایک اور مثال لے لیتے ہیں۔ 9 مئی کی شام کو کروڑوں بھارتی شہری اپنی ٹی وی سکرینز پر اور سوشل میڈیا پر پُرجوش انداز میں اپنے اینکرز کے لیے تالیاں بجاتے رہے جو انہیں بتا رہے تھے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ بہ ظاہر پاکستان میں ایک شہر کے بعد ایک شہر پر بھارتی مسلح افواج قبضہ کررہی تھیں اور ایک پورا صوبہ اپنی آزادی کا اعلان کرکے پاکستان سے الگ ہوچکا تھا۔ حکومت گر چکی تھی اور فوجی سربراہ کو برطرف کر دیا گیا تھا۔
لیکن یقیناً یہ سب ایک دھوکا تھا۔ اس دوران کیا کوئی ایک بھی بھارتی شہری تھا جس نے دیگر خبررساں ذرائع کو دیکھنے کی زحمت کی ہو؟ ایک ایٹمی ملک کے میڈیا آؤٹ لیٹس میں ’خبروں‘ کا طوفان برپا تھا جس میں باآسانی دوسرے ایٹمی ملک کو شکست دی جارہی تھی۔ تو کیا بھارت میں اس حوالے سے پُرجوش کسی بھی شخص نے بی بی سی، سی این این، رائٹرز یا الجزیرہ کو چیک کرنے کا نہیں سوچا جن میں سے تمام کے پاکستان میں رپورٹرز موجود ہیں؟ یہاں تک کہ جب یہ شواہد سامنے آنے لگے کہ پاکستانی فضائیہ نے 5 بھارتی طیارے مار گرائے ہیں اور بھارت کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے تو بھارتی میڈیا نے اسے ’بھاری‘ کے بجائے ’معمولی نقصان‘ کے طور پر بیان کیا۔
لیکن اتنا بڑا جھوٹ بولنے والے ان لوگوں میں سے کسی نے معافی نہیں مانگی۔ انڈین ٹی وی چینلز کے تمام نامور اینکرز ساری رات ٹی وی پر چیختے رہے اور دلیرانہ انداز میں بھارت کی کامیابی اور پاکستان کی شکست کی جھوٹی ’خبریں‘ چلاتے رہے جو صبح ہوتے ہی ریورس ہو گئی اور پتہ یہ چلا کہ پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں بھارتی ایئر فورس کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم اپنی خفت مٹانے کے لیے آج دن تک نہ تو بھارتی سرکار اور نہ ہی ان کے اینکرز نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ چار روزہ جنگ میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یعنی جھوٹ کی دنیا بسانے والے سچ کا سامنا کرنے کو تیار نہیں اور خود کو دھوکہ دیے چلے جا رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان مسلسل اڈیالہ جیل سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی قسم کی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ عمران اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوج اپنا مخالف بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ دوسری پارٹی انہیں روکنے کے لیے کوئی ڈیل کرے، لیکن ایسا ہو نہیں پا رہا۔ دوسری جانب انکے ساتھی مسلسل یہ کہانی بیچتے رہتے ہیں کہ خان صاحب کو جیل سے نکالنے کے لیے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں اور وہ فلاں تاریخ تک باہر آ جائیں گے۔ لیکن جب مقررہ تاریخ کو بھی خان کی رہائی نہیں ہوتی تو ان کے حامیوں کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خود ہی رہائی نہیں چاہتے کیونکہ وہ ’اصول پسند‘ شخص ہیں جو ’کرپٹ‘ اور ’ظالم‘ مخالفین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔ یعنی انگور کھٹے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کے کاروں کے خیال میں عمران خان اب مایوسی کا شکار ہو کر ذہنی طور پر بھی ماؤف ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کے ایکس اکاؤنٹ سے اکثر ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے اپنے بیانات سے متصادم ہوتی ہیں۔ وہ ایک روز فوج کے خلاف بیان داغتے ہیں تو دوسرے روز فوج کی خدمات کا اعتراف بھی کر لیتے ہیں۔ شاید وہ خوفزدہ ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی کوشش کی خبر باہر نکلنے سے انکے حامی ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر کسی روز وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اسے بھی اپنے اصولوں کی فتح قرار دے دیں گے۔