وفاقی حکومت نے پٹرول مہنگا کر کے سڑکیں بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مجوزہ ریلیف عوام کو پہنچانے کی بجائے بلوچستان کی سڑکیں بنانے کے فیصلے پر شہباز حکومت سخت عوامی تنقید کی زد میں ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گر رہی ہیں، شہباز حکومت نے غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے غریب عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے محروم کر دیا ہے۔

وفاقی حکومت نے ایک طرف تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، دوسری طرف اس پر عائد لیوی میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں عوامی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر محمود نامی ایک صارف نے لکھا، ”عالمی منڈی میں جب قیمتیں اوپر جاتی ہیں تو حکومت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی لیکن جب یہ قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تو حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو سستا پٹرول فراہم کرنے سے گریز کرتی ہے۔‘‘

احمد شاہ نامی ایک صارف کے مطابق بلوچستان میں سڑک ضرور بننی چاہیے لیکن اس کے لیے کسی اور منصوبے سے پیسے لیے جانے چاہییں کیونکہ ان کے بقول سڑک کے منصوبے کے پیسے ٹھیکیداروں اور کمیشن والوں تک پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن تیل کی قیمت کم ہونے سے کسان سمیت سارے غریب لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ ہماری گندم خریدتے وقت حکومت کہتی ہے کہ مارکیٹ فورسز ہی قیمت کا فیصلہ کریں گی لیکن پٹرول کے معاملے میں حکومت مارکیٹ فورسز کو کیوں کنٹرول کر رہی ہے؟

دوسری جانب معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عوام کو منتقل نہ کرنا اور اس پر لیوی کو بڑھانا بہت ہی نامناسب بات ہے۔‘‘حکومت ایسے فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں مشاورت کا قانونی و جمہوری طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی بلکہ یہاں وزیر اعظم کی ایماء پر ایسے بڑے بڑے فیصلے کر کے عوام کو ریلیف سے محروم کیا جا رہا ہے۔

کسانوں نے مریم کی کسان کارڈ سکیم ڈھکوسلہ قرار دیکر مسترد کر دی

 

تاہم ناقدین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس اہم معاشی فیصلوں کا اختیار نہیں ہے، اس لیے ایسے فیصلے طاقتور حلقوں کی طرف سے آتے ہیں۔‘‘چونکہ شہباز حکومت متنازعہ مینڈیٹ سے آئی ہے اور اسے ان فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کرنے کی بھی کوئی فکر نہیں ہے، اسی لیے وہ عوامی مفاد کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘‘ مبصرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لیوی میں اضافہ کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت ان لوگوں سے ٹیکس لینے میں ناکام ہو گئی ہے جن سے لیا جانا چاہیے تھا اب وہ اپنی غفلت کی سزا پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو دے رہی ہے۔ اس عمل سے اس غریب کو بھی ٹیکس دینا پڑے گا جو قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔‘‘

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف نہ پہنچانے کے حوالے سے پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب ملک کا کہنا تھا کہ ”ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے ہماری سیلز میں اضافہ ہوگا اور ہماری آمدنی میں بہتری آئے گی لیکن یہ نہ ہو سکا۔‘‘

یاد رہے نئے امریکی ٹیرف کے بعد عالمی کساد بازاری اور پٹرول کی طلب میں کمی کی وجہ سے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق، ابتدائی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول کی قیمت میں ممکنہ کمی کا اعلان کیا تھا، لیکن چند گھنٹوں بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ حکومتی مؤقف ہے کہ ”قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ مالی ضروریات اور ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات کے تحت کیا گیا ہے۔‘‘

Back to top button