عمران کی رہائی کے لیے ٹرمپ سے وابستہ امیدیں دم کیوں توڑنے لگیں؟

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وابستہ امیدیں دم توڑنے لگی ہیں کیونکہ انہوں نے اب تک اپنے کسی بھی خطاب میں بانی پی ٹی آئی کا ذکر تک کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
سینیئر صحافی انصار عباسی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو بڑی توقع تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ حلف اٹھا کر عمران خان کی مدد کو آئیں گے اور اُنہیں نہ صرف جیل سے آزاد کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے بلکہ اُن کیلئے حکومت میں آنے کی راہ بھی ہموار کریں گے۔ کئی لوگ تو اس انتظار میں تھے کہ ٹرمپ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے عمران کی رہائی کا ہی مشن مکمل کریں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ماضی قریب میں آرمی چیف کے ساتھ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی ملاقات بھی اسٹیبلشمنٹ کے اس ممکنہ خدشہ کا نتیجہ ہو سکتی ہے کہ صدر ٹرمپ کوئی بیان جاری کر سکتے ہیں، اُن کی طرف سے کسی وقت بھی کوئی ٹویٹ آ سکتا ہے کہ ’’میرے دوست‘‘ کو رہا کریں۔ لیکن ابھی تک ایسا خچھ نہیں ہوا۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ حقیقت میں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں کیا کریں گے۔ اگر وہ عمران کی رہائی کے لیےبکوئی بیان دے ہی دیتے ہیں تو کیا وہ اس حد تک بھی جائیں گے کہ پاکستان پر دبائو کیلئے اس حوالے سے کوئی عملی قدم بھی اُٹھائیں، جیسا کہ آئی ایم ایف پر پریشر ڈال کر پاکستان کے جاری پروگرام کو خطرہ میں ڈال دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے سعودی عرب جیسے دوست برادر ممالک سے بھی عمران خان کی رہائی کیلئے بات کر سکتے ہیں اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر سعودی قیادت کیا عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوگی یا پاکستان کی فوجی قیادت کیساتھ؟ بظاہر فوری طور پر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے بیرون ملک بااثر افراد یقینا ًاس کوشش میں ہیں کہ صدر ٹرمپ اور امریکا عمران خان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے فعال کردار ادا کریں۔ حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر سوچ بچار کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدام بھی ہوتےنظر آ رہے ہیں کہ امریکا کے پاکستان کیساتھ تعلقات کو اتنا اہم بنایا جائے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے کوئی ایسا مطالبہ یا دبائو سامنے آنے ہی نہ پائے یا اگر ایسا کوئی دبائو آ ہی جاتا ہے تو پھر اس سے کس طرح سے نپٹا جائے؟ ماضی کی مثالوں کے بھی حوالے دئیے جا رہے ہیں کہ کس طرح امریکا کے دبائو کو رد کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی ایسا دبائو آتا ہے تو اس کے نتیجہ میں کس قسم کی ڈیل ممکنہ طور پر ہو سکتی ہے اور ایسی ڈیل کی صورت میں کون سا ملک عمران خان کی گارنٹی دے گا۔ چونکہ کسی کو بھی پتا نہیں کہ صدر ٹرمپ کیا کرینگے، کچھ کریں گے بھی کہ نہیں چنانچہ ہر کوئی اپنے اپنے اندازے لگا رہا ہے۔ ایک طرف اگر ایک امید ہے تودوسرے طرف ایک انجانا سااندیشہ بھی پایا جاتا ہے اور شاید اسی اندیشے کی بنا پر وزیر داخلہ محسن نقوی کے امریکا کے دورے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس معاملے پر کیا ہونا یے وہ جلد سب کے سامنے آجائے گا۔ تحریک انصاف والوں کو امید ہے کہ اگر ٹرمپ کی طرف سے کوئی ٹویٹ نہیں بھی آتا تو اُن سے آنے والے دنوں میں اس معاملے پر میڈیا کی طرف سے ضرور سوال ہو گا جس کے جواب میں وہ عمران خان کو اپنا ’’دوست‘‘ گردانتے ہوئے جیل سے رہا کرنے کیلئے آواز اُٹھائیں گے۔ جب سے صدر ٹرمپ کی الیکشن میں کامیابی ہوئی اُس وقت سے پاکستان کے میڈیا کا بھی سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال بھی شاید یہی ہے کہ کیا ٹرمپ عمران خان کو رہائی دلوانے کیلئے کوئی بیان دینگے یا پاکستان پر کوئی دبائو ڈالیں گے؟گویا پاکستان کی سیاست کے متعلق فیصلےکیلئے سب کی نظریں امریکا اور صدر ٹرمپ پر مرکوز ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جو بحیثیت قوم، چاہے کوئی امید لگائے بیٹھا ہے یا کوئی کسی اندیشے میں مبتلا ہے، دونوں صورتوں میں قابل افسوس بات ہے۔