9 مئی کے حملوں نے دوبارہ PTI کی صفوں میں کھلبلی کیوں مچا دی؟

سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں ملوث تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کیخلاف درج کیسز کے فیصلے 4 ماہ کے اندر کرنے کے حکم نامے نے پی ٹی آئی کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے حالانکہ اس سے پہلے پارٹی قیادت خود ان کیسز میں فوری انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہی تھی۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب تحریک انصاف کے منتخب ارکان پارلیمنٹ کو سزا ملنے کی صورت میں ممکنہ نا اہلی کا خوف تنگ کرنے لگا ہے۔ اس معاملے پر پارٹی ارکان کے درمیان متواتر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، اور اب وہ عدلیہ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے یہ سوال کر ریے ہیں کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کورٹس انصاف کی فراہمی کیسے یقینی بنا سکیں گی، یاد ریے کہ آئین کے ارٹیکل 62 اور 63 کے تحت کسی بھی جرم پر عدالت سے سزا ملنے کی صورت میں کوئی بھی رکن پارلیمنٹ از خود سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل ہو جاتا ہے۔

اس سے پہلے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا یہ موقف تھا کہ 9 مئی کے 319 مقدمات میں گرفتار پارٹی رہنماؤں اور ورکرز کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائے جائے اور ان کے کیسز کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ اس حوالے سے دائر کردہ ایک پٹیشن پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کر دیا ہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں گرفتار ملزمان کے کیسز کا چار ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے دسمبر 2024 میں چار درجن سے زائد تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ورکرز کو فوجی عدالت کی جانب سے قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں کیونکہ ان پر فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہو گیا تھا۔

دسمبر 2024 میں جن ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ان کے خلاف دائر کردہ چار شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے حملوں کے لیے ایک منظم سازش تیار کی گئی کا مقصد نہ صرف عمران خان کے مطالبات تسلیم کروانے کیلیے فوج ہر دبائو ڈالنا تھا بلکہ فوج کے اندر پی ٹی آئی کے حق میں بغاوت کروانا بھی تھا۔ 9 مئی کے حملوں کے حوالے سے پروسیکیوشن کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ریاستی اداروں کے خلاف تشدد کا موئثر جواب نہ ملنے پر پارٹی زیادہ بیباک ہوگئی تھی، فوجی تنصیبات پر سامنے آ کر کھلے حملے کرنے کا مقصد فوج کا مورال گرانا اور ڈیل کےلیے دباؤ ڈالنا تھا، یہ ایک کھلی سازش تھی جس کا مقصد مسلح افواج کی قیادت پر سیاسی دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلہ کروانا تھا۔

پراسیکیوشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 9 مئی 2023 کے واقعات نہ تو اکا دکا تھے اور نہ ہی بے ساختہ، یہ واقعات ایک بہت ہی منظم اور خطرناک ترین حکمت عملی کا حصہ تھے جن کا مقصد عمران خان کے غیر آئینی مطالبات منوانے کیلیے ریاستی اداروں پر دبائو ڈالنا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 مئی 2023 کے حملے ایک ایسے بیانیے کے تحت کیے گے جو ایک شخصی فرقے کا تراشا ہوا تھا۔ اسی لیے عمران خان نے کسی بھی مرحلے پر نہ تو 9 مئی کے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کی مذمت کی بلکہ اسکی بجائے انہوں نے عوام اور مسلح فوج کے مابین تقسیم کی خلیج وسیع کرنے کےلیے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی۔ 9 مئی کی پروسیکیوشن رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک سازش کے تحت سٹریٹ پاور استعمال کرتے ہوئے دفاعی اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، اس ساز کی بنیاد یہ مفروضہ تھا کہ غیر مسلح احتجاجی مظاہرین اور فوج کے مابین تصادم سے فوج مخالف جذبات جنم لیں گے اور یوں عوام اور فوج کے مابین حائل خلیج اور بھی وسیع ہو جائے گی۔

دوسری طرف حال ہی میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹس کو ہدایت کی ہے کہ وہ 9؍ مئیکے کیسز چار ماہ کے اندر نمٹائیں، اس فیصلے کا اصل مقصد حساس مقدمات کی سماعت میں تاخیر کے حوالے سے خدشات دور کرنا اور سماعت کا عمل تیز کرنا ہے۔ لیکن ادھر تحریک انصاف میں اب یہ اندرونی بحث شروع ہو چکی ہے کہ اگر چار ماہ کے اندر 9 مئی کے کیسز کے فیصلے سنا کر انہیں سزائیں دے دی گئیں تو تمام منتخب ارکان پارلیمنٹ نا اہل ہوئے ہو جائیں گے۔ ایسے میں پارٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت ہی واحد قابل عمل آپشن رہ گیا ہے۔

یاد رہے کہ مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے ارکان قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی سمیت تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد 9؍ مئی 2023 کے حملوں سے متعلق درج شدہ مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین  کو خدشہ ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کیخلاف سپریم کورٹ کے حکم نامے کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ صرف پنجاب میں 9؍ مئی 2023 کے حملوں کے 319 مقدمات درج ہیں جن میں 35؍ ہزار 962 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

Back to top button