نیوکلیئر جنگ سے بچنے کے لیے پاک بھارت بیک چینل کی بحالی لازمی کیوں؟

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی پاک بھارت باہمی کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے سے انکار کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ یہ دونوں نیوکلیئر ہمسائے جلد از جلد اپنے بیک چینل رابطے بحال کریں تاکہ ایک ممکنہ نیوکلیئر جنگ کو روکا جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کُن ثابت ہوں گے۔
امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کی سفیر تعینات رہنے والی معروف ڈپلومیٹ ملیحہ لودھی نے انگلش اخبار ڈان میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک بار پھر خوفناک تصادم کے دہانے پر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے برصغیر کو ایک بے یقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے بحران پھیلنے کا خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ دو طرفہ بات چیت کے راستے کو مکمل نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ سفارتی تعلقات مزید بدتر ہورہے ہیں۔
ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے میں 26 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے جو دو ہمسایوں کے درمیان سرحد پار دریاؤں کے بہاؤ اور پانی کے انتظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دیگر اقدامات میں اٹاری بارڈر کی بندش، ویزا کی منسوخی اور نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کو محدود کرنا شامل ہے۔بھارت کی جانب سے یہ نام نہاد جوابی سخت اقدامات پاکستان کے حملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیقات اور شواہد کے بغیر کیے گئے۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے اپنے اعلامیے میں محض ’دہشتگرد حملے کے سرحد پار تانے بانے‘ کا ذکر کیا لیکن بھارتی میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے جس میں حملے کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے۔
ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم مودی نے حملے کے ذمہ داروں اور ان کے سرپرستوں کو ’ناقابلِ تصور سزا‘ کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ بھارتی حکومت ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے کسی بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اس صورت حال نے 2019 کے بالاکوٹ واقعے کی یادیں تازہ کردی ہیں کہ جب بھارتی طیاروں نے پاکستان کی سرحدی حدود میں دراندازی کی کوشش کی اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔ پاکستان نے جموں میں اس ایئر اسٹرائیک کا جواب دیا تھا۔ تاہم بحران دوست ممالک کی مدد سے اس وقت حل ہوگیا تھا کہ جب پاکستان نے اس بھارتی پائلٹ کو رہا کیا جس کے جہاز کو پاکستان کی سرحدی حدود میں مار گرایا گیا تھا۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا فیصلہ یوں اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ کئی سال سے نئی دہلی 1960ء میں طے پانے والے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے جس نے 6 دہائیوں سے زائد عرصے میں کئی جنگیں، تصادم اور کشیدگی دیکھے ہیں لیکن یہ معاہدہ پھر بھی برقرار رہا۔ مگر حالیہ برسوں میں دونوں ممالک معاہدے کے تحت اپنے تنازعات حل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہیں تھے۔
ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے بعد مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدے ہر عمل فوری طور پر روک دیا ہے۔ یہ معطلی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک پاکستان سرحد پار دہشتگردوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔ فی الوقت معطلی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ پانی کے بہاؤ کے ڈیٹا کا اشتراک اور پروجیکٹ ڈیزائن کے بارے میں معلومات کا تبادلہ بند کر دے گا لیکن سچ تو یہ ہے کہ بھارت تو یہ تبادلہ کئی سالوں قبل ہی بند کر چکا ہے۔ ملیحہ لودھی کے مطابق پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے انڈیو دیگر اقدامات کر سکتا ہے۔ لیکن وہ فوری طور پر پانی کا بہاؤ روک یا اس کا رخ نہیں موڑ سکتا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اس کے پاس انفرااسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ لہازا اس فیصلے کے قلیل مدتی اثرات محدود ہوں گے۔ مگر بلاشبہ اس کے طویل مدتی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
سابق پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ فی الحال نئی دہلی کی جانب سے کسی طرح کی فوجی کارروائی سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے بھارتی حکام کے خیال میں سخت بیانات اور اقدامات ’مؤثر‘ بھارتی سفارتی حکمت عملی ہے جس کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ 24 اپریل کو مودی نے بہار میں کی گئی اپنے تقریر میں کہا کہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کا ’دنیا کے آخری کونے‘ تک پیچھا کریں گے۔ اس بیان سے متوقع فوجی کارروائی کا مضبوط اشارہ ملتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ روایتی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سائبر حملوں اور غیرمتناسب کارروائیوں کا بھی سہارا لیا جائے گا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں پر بھاری ہتھیار تعینات کیے جاچکے ہیں۔
بقول ملیحہ لودھی، وزیراعظم مودی کا شاید یہ خیال ہو کہ وہ اسرائیل کا طریقہ واردات اپناتے ہوئے پاکستان کو ’سزا‘ دینے کا حربہ استعمال کر سکتے ہیں، لیکن یاد ریے کہ کسی بھارتی فوجی کارروائی کا پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب یا جائے گا جس کے انڈیا پر سنگین اثروت مرتب ہوں گے اور حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ 2019 میں بھارت کی جانب سے بالاکوٹ پر حملے کے رد عمل میں ہوا تھا۔
یاد رہے کہ 2019 میں تیسرے فریق یعنی امریکہ کی مدد سے انڈیا پاکستان بحران حل ہوا تھا۔ لیکن اس مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کردار ادا کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران مودی نے محدود جنگ کا پنگا لے لیا تو نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسائے جوہری جنگ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے ہر صورت بچنا ہوگا۔ لہذا ضروری ہے کہ مزید تاخیر کیے بغیر پاک بھارت بیک چینل روابط کو بحال کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کُن ثابت ہوں گے۔