نئی نہروں کے منصوبے پر مریم حکومت کو سندھ کے ہاتھوں شکست

مریم نواز کی پنجاب حکومت کو نہری پانی کے مسئلے پر اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا جب وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کی ناراضی سے بچنے کیلئے پنجاب حکومت کا دریائے سندھ سے نئی نہریں نکال کر چولستان کو آباد کرنے کا منصوبہ مسترد کر دیا۔ خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے دریائے سندھ پر 6 نئی نہروں کی تعمیر کا اعلان کر رکھا تھا جس پر وفاقی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا کیونکہ جہاں ایک طرف پنجاب حکومت اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹنے سے انکاری تھی وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بھی اس حوالے سے سخت مؤقف اپنا رکھا تھا کہ وہ کسی صورت دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کی اجازت نہیں دینگے۔ تاہم پنجاب حکومت کو یقین تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر اس کے ساتھ کھڑی ہو گی تاہم مریم نواز کی امیدیں اس وقت خال میں مل گئیں جب وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت بچانے کی خاطر پنجاب حکومت کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کا منصوبہ مسترد کر دیا اس طرح نہری پانی کے مسئلے پر چچا شہباز شریف کے ہاتھوں مریم نواز کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت سی آئی سی یعنی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے، جس کے بعد وفاقی حکومت نے متنازع منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔سی سی آئی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق کونسل نے نئی نہروں کے معاملے پر ایکنک کی 7 فروری کی منظوری منسوخ کردی ہے۔ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اتفاق رائے کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ صوبوں کے درمیان باہمی اتفاق پیدا ہونے تک وفاقی حکومت آگے نہیں بڑھے گی۔اعلامیے کے مطابق تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور واٹر مینجمنٹ انفراسٹرکچر کے فروغ کے لیے ایک طویل مدتی اتفاق رائے کا روڈ میپ تیار کیا جارہا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پانی ایک انتہائی قیمتی شے ہے اور آئین سازوں نے اسے تسلیم کیا، اس لیے انہوں نے تمام واٹر تنازعات کو باہمی اتفاق اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مناسب غور و فکر کے ذریعے حل کرنے کا مینڈیٹ دیا۔اعلامیے کے مطابق نئی نہروں کی تعمیرکےلیے7فروری 2024 کوایکنک کی منظوری کو واپس لیا جائے گا، 17 جنوری 2024 کےاجلاس میں اس سے متعلق ارساکا سرٹیفکیٹ واپس لیاجائےگا۔پلاننگ ڈویژن اور ارسا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قومی یکجہتی کے مفاد میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنائیں اور باہمی اتفاق تک تمام خدشات کو دور کریں۔
وفاقی حکومت کے نئی نہروں کی تعمیر کا منصوبہ معطل کرنے کے فیصلے پر پیپلز پارٹی قیادت خوشی سے نہال دکھائی دیتی ہے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ کینال منصوبے سے متعلق معاملہ اب حل ہوگیا ہے ، جب تک اتفاق رائے نہیں ہوتا کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ نئی نہروں کی تعمیر کا منصوبہ مسترد ہونے کے بعد پراپیگنڈا کر کے نفرتیں پھیلانے والے ناکام ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پر وزیراعظم نے پیپلزپارٹی قیادت سے ملاقات کی اور دو مئی کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا تھا۔حکومت سندھ کی اپیل پر وزیراعظم نے دو مئی کے بجائے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آج ہی طلب کیا تھا۔
دوسری جانب مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے دریائے سندھ پر نئی نہریں بنانے کا منصوبہ مسترد ہونے کے بعد وکلا نے ببر لو بائی پاس کے علاوہ تمام دھرنے ختم کرنے جبکہ 30 اپریل سے تمام کورٹس میں ہڑتال بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم سندھ کے مختلف مقامات پر دھرنوں کے باعث 40 ہزار سے زائد گاڑیاں تاحال پھنسی ہوئی ہیں۔کاروباری شخصیات اور تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ معاملات طے پانے کے بعد اب جلدازجلدسڑکوں کو کھلوایا جائے۔پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کہتے ہیں کہ ’سندھ کی سرحد پر جو کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں وہاں ہمارے آلو کے بھی 250 کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں اور اگر درجہ حرارت درست نہیں رکھا گیا تو یہ آلو خراب ہو جائیں گے۔‘’اس کی مالیت 15 لاکھ ڈالر ہے اور یہ مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید بھیجے جانے ہیں۔‘
خیال رہے کہ سندھ میں ہونے والے دھرنوں سے ٹرانسپورٹرز کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ گڈز کیریئر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ندیم آرائیں نے بتایا کہ قومی شاہراہ کی بندش کے سبب ہونے والے نقصان کا درست تخمینہ لگانا فی الحال مشکل ہے لیکن ’یہ اربوں روپے کا نقصان ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’سامان سے لدے چالیس ہزار ٹرک اور گاڑیاں اس وقت قومی شاہراہ کی بندش کے سبب پنجاب اور سندھ کی سڑکوں پر کھڑی ہیں۔’ان میں پیٹرول اور ڈیزل کے ٹینکر، کوئلے سے لدی گاڑیاں، دوائیں، کھانے پینے کی اشیا اور تین سو زائد جانوروں سے بھری گاڑیاں بھی شامل ہیں۔‘ اس سامان میں ایکسپورٹ کے کنٹینر بھی شامل ہیں اور اگر یہ وقت پر نہیں پہنچتے تو کمپنیوں کو پچاس تین سو ڈالر تک یومیہ جُرمانہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔’سامان خراب ہوگا اور کاروباری معاہدے منسوخ ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں معاشی ماہرین آپ کو خود بتائیں گے کہ اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو کتنا نقصان ہوا ہے۔‘