عمران صدر زرداری اور نواز شریف سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟

اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سابق وزیراعظم نواز شریف اور موجودہ صدر آصف زرداری سے شدید نفرت کرتے ہیں جس کی ذاتی وجوہات ہیں۔ اسی وجہ سے جب عمران خان وزیراعظم بنے تو نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو نیب کیسز میں گرفتاریوں کے بعد جیل کاٹنا پڑی۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار روف کلاسرا نے اپنی ایک تحریر میں عمران خان کی نواز شریف اور آصف زرداری سے نفرت کی کہانی بیان کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2018 میں وزیراعظم بنوائے جانے والے عمران خان کو جن چند سیاستدانوں پر ذاتی غصہ تھا ان میں نواز شریف‘ آصف زرداری اور خواجہ آصف شامل تھے۔ انکے نواز شریف سے ذاتی غصہ کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو انہوں نے عمران کی جمائما سے شادی کے بعد جو سیاسی اور میڈیا مہم چلائی تھی‘ وہ اس سے آج تک ہرٹ ہیں۔ آپ اگر عمران خان کی کتاب پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شادی ناکام ہونے میں اپنے سے زیادہ قصور شریف خاندان کی ان کے خلاف چلائی مہم کا سمجھتے ہیں‘ جس میں سیتا وائٹ کا ایشو بھی شامل تھا۔ پھر عمران خان پر بیرونی سپورٹ اور لابنگ کے الزامات لگائے گئے، رہی سہی کسر تب پوری ہو گئی جب نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں عمران خان کی ساس مسز جیمز گولڈ سمتھ اور جمائما خان پر بھی پاکستان سے نایاب ٹائلز سمگل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا‘ یہ ایک طرح سے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ اس لیے جب پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو عمران ان چند پہلے سیاست دانوں میں سے تھے جنہوں نے جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کی۔
عمران خان نے آئین توڑنے والے جنرل پرویز مشرف کو صدارتی ریفرنڈم میں سپورٹ کیا بلکہ اپنا ووٹ بھی ڈالا۔ خان کو امید تھی کہ جیسے جنرل ضیا نے میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنا کر نوازا تھا اسی طرح جنرل مشرف انہیں وزیراعظم بنائیں گے۔ لیکن جنرل مشرف جنرل ضیا سے زیادہ سمجھدار نکلے اور عمران خان کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر پہلے میر ظفر اللہ جمالی‘ پھر چودھری شجاعت حسین اور آخر میں شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا، یوں عمران خان منہ دیکھتے رہ گئے اور مشرف کے آخری دنوں میں ان کے خلاف ہو گئے۔
روف کلاسرا کہتے ہیں کہ خان صاحب نے اپنی کتاب میں آصف زرداری سے نفرت کی وجہ یہ لکھی کہ جب وہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں شوکت خانم ہسپتال کی مشینری کی درآمد پر رعایت لینے کیلئے بی بی سے ملے تو زرداری صاحب نے اپنی چونچ گیلی کرنے کی فرمائش کر دی تھی۔ لیکن عمران خان کا یہ دعوی ناقابل یقین لگتا ہے چونکہ آصف زرداری تب خود ایک وفاقی وزیر تھے اور چونچ گیلی کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ خان صاحب کی خواجہ آصف سے نفرت کی وجہ بھی کچھ ذاتی نوعیت کی تھی۔ خواجہ آصف وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خان صاحب پر شوکت خانم ہسپتال کے ڈونرز کے دیے گئے ملین ڈالرز عطیات بیرون ملک کسی کام میں ضائع کرنے کا الزام لگایا تھا۔ خان صاحب کیلئے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ جس ہسپتال پر ان کی ساری سیاست کھڑی تھی اس پر ایسے سنگین الزامات لگیں۔ پھر سیالکوٹ سے عمر ڈار کے ساتھ الیکشن تنازع بھی کھڑا ہو گیا۔
روف کلاسرا کے مطابق عمران کو یقین تھا کہ خواجہ آصف یہ الیکشن ہار گئے تھے لیکن جنرل باجوہ نے انہیں جتوا دیا تھا، لہٰذا عمران اور خواجہ آصف ایک دوسرے پر ہمیشہ ذاتی حملے کرتے آئے ہیں۔ وہی خواجہ آصف اگلے روز قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کچا چٹھا کھول رہے تھے کہ کیسے سیالکوٹ میں ایک ارب پتی ٹھیکیدار نے سارا شہر تباہ کرا دیا۔ وہ کہنے لگے: اس ملک کی تباہی میں سب شریک ہیں۔ ان کا اشارہ سیاستدانوں کی طرف تھا جنہیں کوئی ٹھیکیدار‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک یا بلڈر خرید لیتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے کہا: جس بلوچستان کی کنسٹرکشن کمپنی کو سیالکوٹ اور ملک کے دیگر شہروں میں اہم ٹھیکے دیے گئے تھے اور اس نے انتہائی ناقص کام کیا تھا‘ اس کا مالک اس وقت سینیٹ میں پہنچ چکا ہے۔
خواجہ آصف حیران تھے کہ ایک ٹھیکیدار کیسے سینیٹر بن گیا‘ جو نہ کسی پارٹی میں ہے‘ نہ اسے عوام جانتے ہیں اور نہ ہی اس کی سیاسی سپورٹ ہے۔ خواجہ صاحب کا مطلب تھا کہ اس نے صوبائی اسمبلی سے ایم پی ایز کے ووٹ خریدے اور پیسے دے کر سینیٹر بن گیا اور اب وہ اربوں کے ٹھیکے لے کر ناقص کام کرکے ملک کو تباہ کررہا ہے۔ یہ سب کچھ سن کر خیال آیا کہ ہمارے سیاستدانوں اور ایم پی ایز کو خریدنا کتنا آسان ہے کہ ایک نیم خواندہ ٹھیکیدار پوری اسمبلی خرید لیتا ہے۔
