سلمان اکرم راجہ بار بار استعفے کا ڈرامہ کیوں رچاتے ہیں؟

تبدیلی اور شفافیت کی علامت سمجھی جانے والی پی ٹی آئی آج اپنے ہی تضادات اور داخلی انتشار میں الجھی دکھائی دیتی ہے۔ماضی میں بشریٰ بی بی سے گالیاں کھانے والے سلمان اکرم راجہ علیمہ خان سے کلاس کروانے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کی بغاوت کے بعد اب پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی پارٹی سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔عمران خان کی واضح ہدایات کے برعکس ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے پر علیمہ خان کے ہاتھوں دھلائی کے بعد سلمان اکرم راجہ پارٹی عہدے سے الگ ہو گئے ہیں، مبصرین کے مطابق سلمان اکرم راجہ کا استعفیٰ محض ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ پارٹی کے اندر موجود گروہ بندی، انتشار، بدانتظامی اور قیادت کے فقدان کا عکاس ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر فیصلے کسی واضح پالیسی یا ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت نہیں بلکہ ذاتی پسند و ناپسند اور خاندانی اثرورسوخ کی بنیاد پر کئے جا رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کے استعفے نے پارٹی کے اندر موجود اختلافات اور قیادت کے بحران کو ایک بار پھر آشکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کے علیحدگی اختیار کرنے کی فوری وجہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے معاملے پر پارٹی کے اندر شدید اختلافِ رائے اور عمران خان کی بہن علیمہ خان کے ساتھ پیدا ہونے والا تناؤ بتایا جا رہا ہے۔ علیمہ خان کا مؤقف تھا کہ چونکہ عمران خان نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی، اس لیے پارٹی کو اس فیصلے سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف سلمان اکرم راجہ نے پارٹی کی سیاسی کمیٹی کے ذریعے امیدواروں کو نامزد کرنے کا عمل آگے بڑھایا، جس پر سخت اعتراضات سامنے آئے اور بالآخر سلمان اکرم راجہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان کی 9مئی مقدمات میں سزاؤں اور نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات پر پی ٹی آئی اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی، تاہم پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے 2 حلقوں میں امیدوار نامزد کردیے اور یہ عمل سلمان اکرم راجا کی منظوری سے ہوا جس پر علیمہ خان کو سخت تحفظات تھے.علیمہ خان کا کہنا تھا کہ چونکہ عمران خان کی رضامندی نہیں تھی اس کے باوجود سلمان اکرم راجا نے انتخابات کے لیے پارٹی کے امیدوار نامزد کیے ہیں۔ذرائع کے مطابق ضمنی الیکشن لڑنے بارے اختلافات کے علاوہ عمر ایوب کی نااہلی کے بعد سلمان اکرم راجا نے ہی عمران خان کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے لیے محمود خان اچکزئی کا نام دینے پر مائل کیا تھا جس پر پارٹی رہنماؤں کو شدید تحفظات تھے۔ جس کا نتیجہ سلمان اکرم راجہ کی چھٹی کی صورت میں نکلا
خیال رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ سلمان اکرم راجہ نے استعفیٰ دیا ہو۔ اس سے قبل بھی وہ بشریٰ بی بی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد مستعفی ہو گئے تھے، مگر عمران خان کی مداخلت پر واپس آ گئے۔ اس بار تاہم معاملہ زیادہ پیچیدہ نظر آ رہا ہے کیونکہ نہ صرف علیمہ خان بلکہ دیگر رہنماؤں نے بھی ان کے فیصلوں پر کھلے عام سوالات اٹھائے ہیں۔دوسری جانب سلمان اکرم راجہ پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ کبھی آسانی محسوس نہیں کرتے تھے ان کے تعلقات باہمی طور پر تنائو کا شکار رہے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں بشریٰ بی بی سلمان اکرم راجہ کو گالیاں تک دے چکی ہیں۔ جس کے بعد لگتا نہیں کہ سلمان اکرم راجہ اپنے عہدے پر واپس آئیں گے۔
واضح رہے کہ سلمان اکرم راجہ علیمہ خان کی گڈ بک میں شامل تھے سلمان اکرم راجہ نے ہی نہ صرف علیمہ خان کو سلائی مشین کیس سے بچایا تھا بلکہ جب پارٹی میں بشریٰ بی بی نے قیادت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تو اس کے مقابلے میں علیمہ خانم آگئی تھیں جن کا سلمان اکرم راجہ نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ جس کے بعد بشریٰ بی بی کو بالآخر پارٹی پر قبضے سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا تاہم اب سلمان اکرم راجہ نے علیمہ خانم کی وجہ سے ہی اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسری جانب سلمان اکرم راجہ کے مستعفی ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں جنرل سیکرٹری کے عہدے کیلئے دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ نئے سیکریٹری جنرل کے لئے کئی نام سامنے آگئے ہیں تاہم سردار لطیف کھوسہ اس دوڑ میں آگے نظر آتے ہیں، جبکہ سردار لطیف کھوسہ کے علاوہ اور بھی کئی پارٹی رہنما اس دوڑ میں شامل ہیں اور انھوں نے اس حوالے سے پارٹی میں لابنگ کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
