پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن ایک مرتبہ پھرکیوں لٹک گئی؟

قومی ایئرلائن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز یعنی پی آئی اے کی نجکاری میں شامل مختلف فریقین نے بعض امور پر ڈیڈلاک کے بعد قومی ائیر لائن کی فوری بولی لگانے سے صاف انکار کر دیا جس کے بعد پی آئی اے کی  پرائیویٹائزیشن کا عمل ایک مرتبہ پھر تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اب نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کے ممکنہ خریداروں کے لیے بولی لگانے کی مقررہ ڈیڈ لائن 30 اکتوبر سے بڑھا کر اب 17 نومبر 2025 کر دی ہے۔

خیال رہے کہ پی آئی اے گزشتہ کئی دہائیوں سے مالی، انتظامی اور عملی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے مالی خسارے، ناقص سروس، بدانتظامی، اور سیاسی مداخلت نے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مختلف حکومتوں نے متعدد اصلاحاتی اقدامات کیے، تاہم طویل عرصے سے زیر بحث نجکاری کو ہی پی آئی اے کو درپیش بحران کا مستقل حل سمجھا جا رہا ہے۔ جس کیلئے ماضی قریب میں متعدد کوششیں بھی کی گئی ہیں تاہم عدم دلچسپی کی وجہ سے نجکاری کا عمل مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ جس کے بعد حالیہ دنوں مختلف اداروں پر مشتمل کنسورشیم کے سامنے آنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ قومی ائیرلائن کی نجکاری کا عمل مکمل ہو جائے گا تاہم حالیہ پیش رفت کے مطابق، نجکاری کا یہ عمل ایک مرتبہ پھر تاخیر کا شکار ہو گیا ہے، اور نجکاری کمیشن نے ممکنہ خریداروں کے لیے بولی لگانے کی آخری تاریخ 30 اکتوبر 2025 سے بڑھا کر 17 نومبر 2025 کر دی ہے۔

یاد رہے کہ جن 4 کنسورشیم کو پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے ان میں سے پہلے کنسورشیم میں لکی سیمنٹ لمیٹڈ، حب پاور ہولڈنگز لمیٹڈ، کوہاٹ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور میٹرو وینچرز لمیٹڈ شامل ہیں، دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائئزر کمپنی، سٹی اسکولز لمیٹڈ اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی فرٹیلائزر اور ایئربلیو بطور الگ الگ کمپنیوں کے پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال بھی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بڈنگ کا انعقاد ہوا تھا تاہم صرف ایک کمپنی بلیو ورلڈ سٹیز نے اس میں حصہ لیا تھا، لیکن کمپنی کی جانب سے 85 ارب روپے کی بیس پرائیس کے مقابلے میں 10 ارب روپے کی بولی دی گئی تھی جس وجہ سے نیلامی کا عمل مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں اب تک 4 بڑی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کر رکھی ہے جن میں عارف حبیب لمیٹڈ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی، ایئر بلیو اور لکی گروپ شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں پہلے ہی پری کوالیفائی کر چکی ہیں تاہم اب ان کمپنیوں نے حکومت سے بعض شرائط میں نرمی کی درخواست کر دی ہے۔ جس کے بعد بڈنگ کا عمل روک دیا گیا ہے۔

نجکاری کے عمل میں تاخیر کی متعدد وجوہات سامنے آئی ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ پی آئی اے پر موجود اربوں روپے کے قرضوں اور مالی واجبات کا ہے جن کی تقسیم اور کلیئرنس کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے بھی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے نہ صرف ملازمین بلکہ ممکنہ سرمایہ کار بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ سرمایہ کاروں کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ آیا ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی یا نہیں، خاص طور پر جب ملک میں سیاسی اور پالیسی عدم استحکام مسلسل جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں ایک اور اہم رکاوٹ ریٹائرڈ ملازمین کے حقوق سے متعلق ہے۔ نجکاری کے بعد ملازمین کی پنشن اور میڈیکل سہولیات کا مستقبل غیر واضح ہونے کی وجہ سے ہولڈنگ کمپنی اور ملازمین کی تنظیموں کے درمیان اختلافات جنم لے چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمین کی تنظیمیں اس بات پر بضد ہیں کہ ان کے میڈیکل اور پنشن جیسے بنیادی حقوق محفوظ رہیں جب کہ ہولڈنگ کمپنی نے اس مسئلے کے حل کے لیے مزید مہلت طلب کی ہے۔

تاہم جہاں ایک طرف پی آئی کی نجکاری کے حوالے سے خریدار کمپنیوں اور ملازمین کے تحفظات اور اعتراضات سامنے آ رہے ہیں وہیں عوامی و معاشی حلقوں میں بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ اس سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم ہو گا اور ادارے میں پیشہ ورانہ مہارت، جدید ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی معیار کی خدمات متعارف ہوں گی۔ معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بقول: "PIA کو سرکاری تحویل میں چلانا اب ایک ناقابل برداشت بوجھ بن چکا ہے۔ اگر نجکاری شفاف انداز میں کی جائے تو یہ نہ صرف ادارے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے۔” ان کے خیال میں نجکاری سے ادارے کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے اور خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس، ناقدین کا کہنا ہے کہ نجکاری سے قومی شناخت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، کیونکہ پی آئی اے نہ صرف ایک ایئرلائن ہے بلکہ پاکستان کا ایک علامتی ادارہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کے دوران ملازمین کو نکالا گیا تو ہزاروں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں، جو پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار عوام کے لیے ایک اور دھچکہ ہو گا۔ بعض حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اگر کوئی غیر ملکی کمپنی PIA کو خریدتی ہے تو قومی سلامتی کے حوالے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں، تاہم نجکاری کے عمل کے دوران حکومت نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ نجکاری کے بعد بھی پی آئی اے کا قومی تشخص برقرار رہے گا۔ یعنی ایئرلائن کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی طیاروں سے قومی پرچم ہٹایا جائے گا جبکہ پی آئی اے کی اکثریتی ملکیت صرف پاکستانی شہریوں تک محدود رہے گی اور کسی غیر ملکی فرد یا ادارے کو نجکاری کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

Back to top button