قائمہ کمیٹیوں سے استعفوں نے پی ٹی آئی کی تباہی پھیردی

تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کی ہدایت پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اجتماعی استعفوں نے پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے سٹریٹ پاور کھونے کے بعد پارلیمانی کمیٹیوں سے پی ٹی آئی کے استعفوں نے قانون سازی میں بھی پارٹی کی اہمیت ختم کر دی ہے استعفوں کے بعد حقیقت میں حکومت پر اپوزیشن کا کوئی چیک باقی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش میں قومی اور پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اجتماعی طور پر استعفیٰ دے کر اپنا پاؤں کلہاڑی پر مار لیا ہے۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عمران خان کے غیر سیاسی فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا پارلیمانی اثر و رسوخ مزید محدود ہو گیا ہے۔ سیاسی ماہرین عمران خان کے اس فیصلے کو پی ٹی آئی کیلئے زہر قاتل قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی کمیٹیاں کسی بھی جمہوری نظام میں قانون سازی، احتساب اور پالیسی نگرانی کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ ان کمیٹیوں سے علیحدگی کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی نے قانون سازی کے عمل اور حکومتی اقدامات پر براہ راست اثر انداز ہونے کی اپنی ایک اہم آئینی صلاحیت خود ہی ترک کر دی ہے۔ مبصرین کے مطابق قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دینا ایک علامتی قدم ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس سے پارٹی اپنی آواز خود ہی محدود کر لیتی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاست صرف سڑکوں پر نہیں، ایوانوں میں بھی لڑی جاتی ہے۔” دوسری جانب، پی ٹی آئی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ قومی اور پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا فورم غیر مؤثر ہو چکا ہے، اور وہاں ان کی آواز سنی نہیں جاتی۔جب اسمبلی میں ہماری بات دبائی جائے اور کمیٹیوں میں ہمیں موقع نہ دیا جائے، تو ان کا حصہ بنے رہنا ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے انھوں نے قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہو کر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں موجود رہ کر مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہوتا، تو وہ عوامی سطح پر زیادہ مؤثر اور سنجیدہ قوت کے طور پر ابھر سکتی تھی۔ ان کے بقول، بار بار ایوان سے بائیکاٹ کی حکمت عملی نے پارٹی کو سیاسی تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ’استعفوں کی سیاست‘ پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوری نظام پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہےکہ ’تحریک انصاف استعفے دے کر ہمیشہ اپنا نقصان کرتی ہے۔ 2008 کے الیکشن بائیکاٹ سے لے کر آج تک جتنی بار بھی پی ٹی آئی جمہوری عمل سے خود کو باہر کرتی ہے۔ اس عمل سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہی احتجاج کمیٹیوں کے اندر کیا جاتا اور قانونی سازی کے عمل پر دباؤ رکھا جاتا، تو زیادہ بہتر تھا تاہم وہ پی ٹی آئی کی استعفوں اور احتجاج کی پالیسی کو سمجھنے سے قاصر ہیں،

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی سامنے آنے والی حکمت عملی سے صاف پتا چلتا ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر اپنے روایتی طریقہ کار یعنی براہ راست ’سیاسی تصادم‘ کی طرف جا رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں وزیراعلٰی کی تبدیلی اور پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اجتماعی استعفوں کا اقدام بظاہر اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ دونوں اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔ عمران خان کی ہدایات پر پی ٹی آئی نے یہ اقدامات ایک ایسے وقت پر اٹھائے ہیں جب ملکی سیاست میں تناؤ پہلے ہی عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی کی اس جارحانہ غیر سیاسی حکمت عملی کا آغاز خیبر پختونخوا میں ہوا۔ آٹھ اکتوبر کو عمران خان کی ہدایات پر اس وقت کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اور ان کی جگہ سہیل آفریدی کو نئی قیادت سونپ دی گئی۔ تاہم یہ تبدیلی صرف صوبائی سطح تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے قومی سطح پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی کو بھی واضح کر دیا، جہاں پارٹی نے تمام صوبائی اور وفاقی پلیٹ فارمز پر ایک بار پھر ’بائیکاٹ‘ کی پالیسی اپنا لی۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے محض ایک دن بعد، نو اکتوبر کو عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 107 اراکین کو قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اور ممبر شپ سے استعفیٰ دینے کا حکم دیا۔ یوں 10 اکتوبر کو ان کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا اور پارٹی کے اراکین نے تمام 14 قائمہ کمیٹیوں سے دستبرداری اختیار کر لی۔ ان واقعات کی ترتیب سے بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے جس میں مستقبل قریب میں اسلام آباد کی طرف ایک اور احتجاجی مارچ بھی ہو سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ سہیل آفریدی وفاق سے محاذ آرائی سے گریز کریں : گورنر خیبرپختونخوا

دوسری طرف پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو اب تحریک انصاف کہیں نظر نہیں آ رہی ہے اور نہ مجھے ان کے استعفے نظر آ رہے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں یہ استعفے بعد میں دیں پہلے سرکاری گاڑیاں واپس کریں۔ بلکہ گاڑیاں حکومت کے منہ پر ماریں، اور جتنی مراعات وہ لے رہے ہیں ان کو واپس کریں۔‘ احتجاج کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اس بات کا شوق پورا کر کے دیکھ لیں۔ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کے بعد سخت پریشان ہیں اور وہ نجی محفلوں میں رو رہے ہیں کہ ان کو عمران خان نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔

Back to top button