فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ابھی تک مارشل لا کیوں نہیں لگایا؟

معروف ادیب، لکھاری اور کالم نگار عطاء الحق قاسم نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک پاکستان میں مارشل لا نہیں نافذ نہیں کیا۔ وہ دعا کرتے ہیں، اللہ کرے کہ مارشل لا لگانے والی گندی سوچ کبھی بھی ان کے پاک ذہن میں نہ آئے اور پاکستان یوں ہی آگے بڑھتا رہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے کالم میں عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں کہ میرے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر میں ایک نسبت پائی جاتی ہے۔ ان کے والد بھی مولانا تھے اور میرے والد مولانا بہاء الحق قاسمی بھی مولانا تھے۔ جنرل عاصم منیر کے والد غیر سیاسی تھے لیکن میرے ابا جی سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے اور انگریز دور میں مجلس احرار سے ذہنی وابستگی رکھتے تھے۔ انہوں نے جیل کی ہوا بھی کھائی۔
عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ امرتسر میں ہمارے گھر کے باہر سی آئی ڈی کے ایک انسپکٹر کی مستقل ڈیوٹی تھی کہ وہ یہ نظر رکھے کہ مولانا بہاءالحق قاسمی کے گھر کن لوگوں کی آمد و رفت ہے اور اگر انہیں کوئی اسلحہ فراہم کرتا ہے تو چیک کریں کہ ان کے پاس کون سے جنگی جہاز ہیں، طویل عرصے تک کڑی نگرانی کے بعد اسے پتہ چلا کہ مولانا یا تو نماز پڑھنے اور پڑھانے مسجد جاتے ہیں اور وہاں سے سیدھے گھر واپس آتے ہیں، یا پھر وہ پورے ہندوستان کے دور افتادہ شہروں میں خطابت کیلئے جانے جاتے ہیں۔ گھر کے باہر سی آئی ڈی کے جس انسپکٹر کی ڈیوٹی لگی تھی، اسے جب یقین ہو گیا کہ اس گھر سے اسے اپنے کام کی کوئی چیز نہیں ملے گی تو وہ ہمارے فیملی ممبر جیسا ہو گیا۔ چنانچہ گھر کا سودا سلف لانے کیلئے اسی کو بھیجا جاتا تھا، عطاءاللہ قاسمی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ابا جی کا مختصر تعارف کرایا ہے، ان کی تصانیف اور ضیاءالاسلام نامی میگزین اور دیگر بہت سے کاموں کا ذکر نہیں کیا، اس کے برعکس فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے والد ماجدؒ کے بارے میں صرف یہ بتایا کہ انہوں نے ان کو دینی تعلیمات اور طرزِ زندگی سے روشناس کرایا اور قرآنِ مجید حفظ کرنے کی طرف راغب کیا۔
قاسمی کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ میرے ابا جی کی طرح ان کے ابا جی نے بھی فیملی کے کسی رکن کے حلق سے کوئی لقمہ حرام اُترنے نہیں دیا۔ فیلڈ مارشل کی عمومی شہرت بھی یہی ہے کہ وہ ایماندار اور پرہیز گار انسان ہیں۔ الحمدللہ میں نے بھی اپنے والد کے تتبع میں اپنی اولاد کی حق حلال کی معمولی سی کمائی سے پرورش کی۔ میں نے اپنے تینوں بیٹوں یاسر پیر زادہ، عمر قاسمی اور علی عثمان قاسمی کے بارے میں بھی یہی بات پورے تیقن سے کہہ سکتا ہوں۔ آپ اسے میرا حسن ظن سمجھیں یا یہ سمجھیں کہ مجھے القا ہوا ہے کہ یہی صورتِ حال فیلڈ مارشل کے گھرانے کی بھی ہو گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم دونوں کے ابو عالم تھے۔ واللہ اعلم نہیں تھے۔یقیناً آپ کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ ابھی تک میں نے جو لکھا ہے وہ دھکا سٹارٹ ہے۔
قاسمی کہتے ہیں کہ بات میں نے کچھ اور کرنی ہے اور وہ میں اب کرنے لگا ہوں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر اکثر اپنی تقریروں میں فتنہ الخوارج اور اسطرح کے دیگر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ عام لوگوں کو علم ہی نہیں کہ خارجی کون تھے اور فتنہ الخوارج کیا تھا چنانچہ ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اسی طرح وہ اور بھی بہت سی اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، مجھ جیسے پڑھے لکھے جاہل کو بھی کچھ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ بس مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ابلاغ کا بنیادی اصول پڑھنے یا سننے والے تک وہ بات پوری کلیئریٹی کے ساتھ سمجھ آنا چاہیے جو وہ اپنے سامع یا ریڈر کو سمجھانا چاہتا ہے۔ لوگوں تک اپنی بات کے ابلاغ کا ایک آسان طریقہ سمجھ آیا ہے کہ پانچویں جماعت سے ایم اے تک عربی لازمی قرار دی جائے، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہاں عربی بولنا اور سمجھنا خلافِ قانون ہے۔
اپنی تحریر کے آخر میں اصل نقطے کی طرف آتے ہوئے عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل کی ایک بات جو مجھے بہت اچھی لگی ہے اور اللہ کرے میرا یہ تاثر ہمیشہ قائم و دائم رہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک ملک میں مارشل لاء نافذ نہیں کیا۔ اس سے بھی زیادہ خوبصورت سچویشن یہ ہے کہ میرے پرانے اور مہربان دوست، وزیراعظم شہباز شریف دوست بنانا بھی جانتے ہیں اور دوستی نبھانا بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ فیلڈ مارشل اور وزیراعظم کے تعلقات مثالی ہیں۔ فیلڈ مارشل ہمارے وزیراعظم کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور بات ان کی سمجھ میں آئے تو اسی وقت اس پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم فیلڈ مارشل کے کسی معقول مشورے کو رد نہیں کرتے۔ شہباز شریف وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ ان کے مشورے پر غور کرتے ہیں اور پھر اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر فوراً عمل درآمد کرتے ہیں۔ یہی وسیع القلبی فیلڈ مارشل عاصم منیر میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے اور یوں ہمارا پاکستان مارشل لاءکی لعنت سے پاک ہے اور اس کا کریڈٹ دونوں حضرات کو جاتا ہے اور یوں پوری قوم کو ان کا ممنون ہونا چاہئے۔باتیں کرنے کی اور بھی بہت سی ہیں اور وہ قوم ،ملک، وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کیلئے مشوروں کی صورت میں ہیں، مگر چونکہ میں بنیادی طور پر طنز و مزاح نگار ہوں، لہٰذا ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قلم سے کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جو ملک و قوم اور وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی مدح میں ہو اور اس کا غلط مطلب لیا جائے۔ میں وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو اس حوالے سے بھرپور مبارک دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کی بنیادی اساس اور جمہوریت پر کوئی حرف نہیں آنے دیا اور یوں الحمدللہ ملک ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ ہمارا ازلی دشمن انڈیا ہمارے اندر انتشار اور تصادم دیکھنے کا خواہش مند ہے، مگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی۔
عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ہماری پاک افواج نے انڈیا کی طرف سے پنگا لینے کے بعد اس کی جو پٹائی کی وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کا پورا کریڈٹ اتفاقِ باہمی کو جاتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان اسی طرح چلتا رہے اور یہاں ایک اور مارشل لاء کی نوبت کبھی نہ آئے۔
