دہشت گردی کا جن بے قابو ہونے کا ذمہ دار عمران خان کیوں ہے ؟

 

 

 

عمرانی ٹولے کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ایک بار پھر ملک دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت بدستور اختلافات اور ضد کی سیاست میں الجھی نظر آتی ہےآئے روز ملک میں ہونے والی شرپسندانہ کارروائیوں میں فوجی جوان شہادتیں پیش کر رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی خبرپختونخواہ حکومت دہشتگردی جیسے حساس مسئلے پر بھی سیاست کرنے اوروفاقی حکومت کی سیاسی مخاصمت میں دہشتگردوں کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کے اعلانات کرتی دکھائی دیتی ہے۔ وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کی متضاد حکمت عملی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جس سے نہ صرف دہشتگردوں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے بلکہ وہ خیبرپختونخوا کو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں

 

عالمی جریدے دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبے کے درمیان پالیسیوں میں اتفاق نہ ہونے کے باعث دہشتگردی کے خلاف ایک جامع اور متحدہ لائحہ عمل بنانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ خلیج براہِ راست شدت پسندی کے خلاف ریاستی ردعمل کو متاثر کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 میں طالبان کے دوبارہ کابل پر قابض ہونے کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور واپسی کی پالیسی اپنائی گئی، جس کے تحت ہزاروں شدت پسندوں کو واپس لا کر پاکستان میں آباد کیا گیا۔ بظاہر یہ حکمت عملی تشدد میں کمی کے لیے تھی مگر حقیقت میں اس نے دہشتگردوں کو مزید مضبوط کیا اور پاکستان کے اندر کارروائیوں کی راہ ہموار کی۔

 

ناقدین کے مطابق یہ پالیسی کابل کو خوش کرنے کی ایک کوشش تھی تاکہ افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون حاصل ہو سکے، تاہم عمران خان کے دور میں اختیار کی جانے والی "ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور واپسی” کی پالیسی پاکستان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ ہزاروں عسکریت پسندوں کی واپسی اور بحالی کی کوششوں سے نہ صرف دہشتگردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا بلکہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک مزید مضبوط کر لیا اور اب وہ ریاست پاکستان کو چیلنج کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

ناقدین کے بقول پاکستانی فوج نے آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشتگردوں کو سخت نقصان پہنچایا تھا، لیکن سیاسی قیادت کی غیر سنجیدگی اور تضادات نے ان کامیابیوں کو زائل کر دیا۔ آج ایک بار پھر جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی اپنی ماضی کی روش کے مطابق دہشتگردی جیسے حساس مسئلے پر پوائنٹ اسکورنگ اور ضد کی سیاست کر تی نظر آ رہی ہے۔

 

ڈپلومیٹ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ کارروائیوں کے بعد وفاقی حکومت نے تمام دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں اور سخت فوجی کارروائی پر زور دیا ہے جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت بدستور نیم دلانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور مذاکرات یا محدود کارروائیوں پر اصرار کر رہی ہے۔ مبصرین کے بقول وفاق اور صوبے کے درمیان اختلاف صرف پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ افغان مہاجرین کی واپسی جیسے حساس معاملات پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت وفاقی فیصلوں کو مسلسل نظر انداز کررہی ہے جس سے صوبے کو شدت پسندی کی نئی لہر سے بچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق”جب وفاق اور صوبہ الگ الگ سمتوں میں چلتے ہیں تو دہشتگردوں کے لیے جگہ بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد خودکش جیکٹ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔”

 

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشتگرد نہیں بلکہ سیاسی قیادت کا تضاد ہے۔ جب تک وفاق اور صوبہ ایک صفحے پر نہیں آئیں گے، دہشتگردوں کو ختم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ محض فوجی آپریشنز سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے سیاسی قیادت کا اتحاد اور ایک متفقہ قومی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ ناقدین کے مطابق قومی سلامتی پر سیاست کرنے والے دراصل عوام اور فوج کے خون سے کھیل رہے ہیں۔ وفاق اور صوبے کے درمیان موجودہ تضاد نہ صرف ریاست کو کمزور کر رہا ہے بلکہ دہشتگردوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ جب تک سیاسی قیادت انا اور مفادات کی سیاست سے بالاتر ہو کر مشترکہ موقف نہیں اپناتی، تب تک شدت پسندی کی جڑیں کاٹنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!