انڈیا پاکستان کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز کیوں نہیں مان رہا؟

امریکی وزیرِ خارجہ نے پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کو حملے کی تحقیقات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا مشورہ تو دے ڈالا ہے لیکن بھارت اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے اور پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبے کے باوجود اس نے 26 سیاحوں کے قتل کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی انفارمیشن شیئر نہیں کی۔ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تحقیقات کے نتیجے میں بھارت کو اپنا فالس فلیگ آپریشن بے نقاب ہونے کا ڈر ہے اور وہ اسی لیے اس آفر کو قبول نہیں کر رہا۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے انڈین ہم منصب سبرامنیم جے شنکر اور وزیراعظم شہباز شریف سے فون پر بات کی۔ جہاں امریکی وزیرِ خارجہ نے دونوں ممالک سے کشیدگی میں کمی اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کو کہا وہیں پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ پہلگام حملے کی مذمت کرے اور اسکی تحقیقات میں تعاون کرے۔ یاد رہے کہ پہلگام میں مسلح افراد کے انڈین سیاحوں پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس واقعے کے فوراً بعد انڈیا کی جانب سے اس کے ذمہ داران کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کرنے کے اعلانات سامنے آئے۔ پھر پاکستان کو بالواسطہ طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر معاہدوں کی معطلی، سرحد کی بندش، ویزوں کی منسوخی اور سفارتی عملے کی بے دخلی جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔

پاکستان کی جانب سے بھی انڈین اقدامات کے جواب میں ویسے ہی اقدامات سامنے آئے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے پہلگام حملے کو ایک ’فالس فلیگ‘ آپریشن قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ پہلگام حملے کے حوالے سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی کچھ دستاویزات بھی لیک ہو چکی ہیں جن سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ پہلگام حملہ دراصل را کا اپنا تیار کردہ فالس فلیگ اپریشن تھا جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ اسی لیے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس حملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور یہ کہ پاکستان اس سلسلے میں تعاون کے لیے تیار ہے۔

پاکستان کی اس پیشکش پر انڈیا کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن گذشتہ ایک ہفتے میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ پاکستانی وزرا چند دن میں انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں جبکہ سرحد پار انڈین وزیراعظم نے بھی مسلح افواج کو پہلگام کے ردعمل میں کارروائی کے لیے مکمل ’آپریشنل آزادی‘ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے پاکستان پر تحقیقات میں تعاون پر زور دینے کی بات نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ انڈیا میں اس معاملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں اور پاکستان اس واقعے کی کس قسم کی تحقیقات چاہتا ہے۔

پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی تو اسے روکنا ممکن کیوں نہیں ہوگا ؟

 

یاد ریے کہ ماضی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری عسکریت اور شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں لیکن پہلگام کے حملے کے دس دن بعد بھی کسی تنظیم کی جانب سے اس کی ذمہ داری نہیں لی گئی۔ 22 اپریل کو ہونے والے اس حملے کے بعد انڈین ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک بیان کی بنیاد پر ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ نامی گروپ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ لیکن دی ریزسٹنس فرنٹ کی جانب سے اس بنا سے لاتعلقی کا بیان جاری کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ انڈیا اس تنظیم کو کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ طیبہ کا گماشتہ یا بازو قرار دیتاہے۔

دوسری جانب پاکستان کی طرف سے پہلگام کے حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کی غیرجانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔اسی حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہم نے آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے ٹی اور آرز کو معتبر ہونا چاہیے اور متفقہ طور پر طے کیا جانا چاہیے۔‘ اسی پریس کانفرنس میں پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلگام ’واقعے کے چند منٹ بعد ہی انڈین ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا گیا۔ پھر کچھ دیر میں الیکٹرونک میڈیا نے بھی پاکستان کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا، لیکن اب تک اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم اس واقعے کے حقائق پر جائیں گے۔ الزامات پر نہیں، اگر الزام یہ ہے کہ پاکستانی سرزمین سے نام نہاد دہشت گردوں نے یہ واقعہ انجام دیا تو آپ کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ پہلگام کسی بھی پاکستانی قصبے سے 200 کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے۔

فوج کے ترجمان نے اس واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے اور کہا کہ جس دوردراز مقام پر یہ حملہ ہوا وہاں سے ’کسی کو بھی پولیس سٹیشن تک پہنچنے کے لیے آدھا گھنٹہ درکار ہو گا، تو ایف آئی آر کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ 10 منٹ میں پولیس وہاں پہنچ بھی گئی اور پھر واپس جا کر ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ پہلے ہی اس کی تیاری کر چکے تھے۔‘

Back to top button