آئی ایس آئی چیف کو قومی سلامتی کا مشیر بنانے کا کیا مقصد ہے؟

انڈیا پاکستان کشیدگی عروج پر پہنچنے کے بعد حکومت پاکستان نے آئی ایس آئی چیف لیفٹنٹ جنرل عاصم ملک کو قومی سلامتی کا مشیر بنا کر نہ صرف یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان جنگ کے لیے پوری طرح تیار ہے بلکہ یہ میسج بھی دیا ہے کہ اعلی ترین فوجی سطح پر انڈیا کے ساتھ بات چیت کا راستہ بھی کھلا ہے۔

پہلگام حملے کےبعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے بیچ پاکستانی حکومت نے اپنی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا ہے۔ یہ پاکستانی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے کسی حاضر سروس سربراہ کو مشیر قومی سلامتی کے مشیر جیسے اہم عہدے کا اضافی چارج دیا گیا یے۔ یاد رہے کہ آئی ایس آئی چیف کا تعلق تو فوج سے ہوتا ہے لیکن وہ براہ راست وزیراعظم کو جواب دہ ہوتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ائی ایس ائی کے موجودہ سربراہ کو قومی سلامتی کا مشیر بنانے کا فیصلہ فوجی اور سیاسی قیادت نے اتفاق رائے کے ساتھ کیا۔ یاد رہے کہ مشیر قومی سلامتی کا عہدہ اپریل 2022 سے خالی تھا جب عمران خان ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہو گئے تھے۔

کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو اِس عہدے کا اضافی چارج دیا گیا ہے یعنی وہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی بھی اپنا کام بدستور جاری رکھیں گے۔ اس تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی بطور مشیرِ قومی سلامتی تقرری کا مقصد انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا نہیں، تاہم ایسے مذاکرات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ نجی چینل جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے اس سوال پر کہ کیا آئی ایس آئی چیف کو قومی سلامتی کے مشیر کا چارج اس لیے دیا گیا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی توقع ہے؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’چاہے جتنی بھی کشیدگی ہو بلاخر مذاکرات کا راستہ ہی اپنایا جاتا ہے تاہم آئی ایس آئی کے سربراہ کو مشیر برائے قومی سلامتی کا اضافی چارج دینے کا انڈیا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا ’ملک جب مشکل صورتحال سے گزر رہا ہو تو کسی سویلین یا سیاست دان کے مقابلے میں ایسے شخص کو قومی سلامتی کا چارج دینا بہتر ہوتا ہے جسے مشکل حالات سے بہتر انداز میں نمٹنے کا پہلے سے ’ہینڈز آن‘ تجربہ ہو۔‘

خیال رہے مشیر قومی سلامتی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر کا درجہ رکھتا ہے اور اس منصب پر تعینات شخص قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور سٹریٹجک امور جیسے معاملات پر وزیر اعظم کے پرنسپل مشیر کے طور پر کام کرتا ہے۔ مشیر قومی سلامتی اسلام آباد میں وزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم قومی سلامتی ڈویژن کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس تعیناتی کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور اس تعیناتی، اس کی ٹائمنگ اور مقاصد پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔ دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب انڈیا کے ساتھ تناؤ کا ماحول ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی مشیر تعیناتی ایک اچھی حکمت عملی ہے جو بحرانی کیفیت سے نکلنے میں مدد گار ثابت ہو گی اور میرا خیال ہے کہ شاید یہ انڈین قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول کے ساتھ رابطہ چینل کھولنے کا امکان پیدا کرے گا۔

تاہم دوسری جانب پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی نے اس تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی سلامتی کے مشیر کا کام انٹیلیجنس چیف سے بہت مختلف ہے۔ اس طرح کی دوہری ذمہ داریاں دیے جانے سے ان لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہیں جو فیصلہ سازی میں شامل ہیں اور اس سے فیصلہ سازی کے دوران معلومات اور ممکنہ نتائج اور امکانات پر تنقیدی جائزہ کے مواقع کو محدود ہوتے ہیں۔‘ جہاں سوشل میڈیا اور سیاسی و سماجی حلقوں میں اس فیصلے سے متعلق ہونے والی بحث سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں، تو وہیں چند سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں کہ مشیر قومی سلامتی کا کردار کیا ہوتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور مشیر قومی سلامتی تعیناتی کیوں کی گئی اور اس وقت یہ کتنی اہم ہے؟ اور عاصم ملک کو مشیر قومی سلامتی تعینات کرنا کیا ظاہر کرتا ہے اور کیا یہ کسی کے لیے پیغام ہے؟

انڈیا پاکستان کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز کیوں نہیں مان رہا؟

 

مگر اس سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کون ہیں؟ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اور اُن کے والد لیفٹیننٹ جنرل (ر) جنرل غلام محمد ملک 90 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔ پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ امریکہ کے ’فورٹ لیون ورتھ‘ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔ یہ وہی برطانوی کالج ہے جہاں سے پاکستان کی برّی فوج کے سابق سربراہان پرویز مشرف، اشفاق کیانی اور راحیل شریف بھی مختلف کورسز کر چکے ہیں۔ عاصم ملک ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ بطور مشیر قومی سلامتی عاصم ملک کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق مشیر قومی سلامتی کو ملک کے سربراہ کی ’کان اور آنکھیں‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات سے متعلق تمام امور پر وزیراعظم کو باقاعدگی سے مشورہ دینا اس کا بنیادی کام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر سفارتی و عسکری نوعیت کے سٹریٹجک امور کی نگرانی کرنا، اور فوج اور سول حکومت کے درمیان ایک مسلسل رابطے کا کردار ادا کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔

اسلام اباد میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مشیر قومی سلامتی ملکی سیکورٹی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ نہ صرف عسکری و سول قیادت کے درمیان رابطہ چینل ہوتا ہے بلکہ دوسرے فریقوں کے ساتھ بھی رابطوں میں جڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تعیناتی میں اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کے پاس اجیت ڈوول کی صورت میں ایک با اختیار اور انٹیلجنس کی دنیا سے تعلق رکھنے والا مشیر قومی سلامتی موجود ہے جبکہ پاکستان کے پاس یہ عہدہ گذشتہ چند برسوں سے خالی تھا۔ اب ڈی جی آئی ایس آئی کو یہ عہدہ دینے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس سے طاقتور کوئی اور نہیں ہوتا لہذا جب دو بااختیار افراد یہ عہدہ رکھیں گے تو دونوں جانب کامیاب بات چیت کے امکانات زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے اگرچہ انڈیا کی جانب سے جنگی جنون کم ہوتا نظر تو نہیں آ رہا تاہم اگر اگلے کچھ دنوں میں کوئی بھی رابطے کا چینل کھلے گا تو اس میں دونوں طرف سے قومی سلامتی کے مشیروں کا خاص کردار ہو گا۔

Back to top button