مریم نوازپیپلزپارٹی مخالف بیانات سےآگ کیوں بھڑکارہی ہیں؟

مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد مفاہمت کیلئے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف میدان میں آ گئے ہیں تاہم پیپلزپارٹی کی جانب سے مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کو ہدف تنقید بنانے کے بعد مصالحت کاروں کا مشن مزید مشکلات سے دوچار ہوگیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کبھی بھی حالات کو اس نہج پر لے جانے پر تیار نہیں تھیں تاہم کچھ ناسمجھ مشیروں کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے پارٹیوں کے مرکزی قائدین کو بھی نشانے پر لے لیا ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں جماعتوں کے رہنما جو مرضی بیان دیتے رہیں ایک بات تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی بھی حکومتی اتحاد سے الگ نہیں ہو گی اور دونوں جماعتیں اسی تنخواہ پر کام کرتی رہیں گی۔

خیال رہے کہ پنجاب میں سیلاب متاثرین کو امداد کی فراہمی کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے بیانات پر معافی مانگیں، تاہم مریم نواز واضح کر چکی ہیں کہ انھوں نے کوئی غیر آئینی بات نہیں کی اس لئے وہ اپنے بیانات پر ہرگز معافی نہیں مانگیں گی۔ مریم نواز شریف کے موقف سے ن لیگ کے صدر نواز شریف نے بھی اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے مریم نواز سے معافی کا مطالبہ بے وجہ اور انتہائی غلط ہے۔

دوسری جانب پنجاب میں پیپلز پارٹی نے پنجاب حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دے دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی کابینہ بلاول بھٹو پر بے جا تنقید کریں گے تو ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بطور پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی، وہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب حکومتی بینچوں سے علیحدہ ہو کر اسمبلی میں بیٹھے۔ ہم نے اس فیصلے سے چیئرمین بلاول بھٹو کو آگاہ کر دیا ہے، جس پر بلاول بھٹو نے یہ معاملہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں زیرِ غور لانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔حیدر گیلانی کے مطابق، سی ای سی کا اجلاس اسی ماہ منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو درپیش دباؤ پر تفصیلی بات کی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیوں بارے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں حکومتی بینچوں سے الگ ہونا چاہتی ہے تو یہ ان کا پارٹی معاملہ ہے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پیپلز پارٹی کے رہنما پنجاب پر بلا جواز تنقید کر رہے ہیں۔ ہم سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر پنجاب حکومت کے خلاف انگلی اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین کشیدگی اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر دونوں صوبوں کی حکومتوں نے ایک دوسرے پر سخت تنقید کرتے ہوئے مختلف طرح کے الزامات عائد کئے تھے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق دونوں اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات وفاقی سطح تک پہنچ چکے ہیں اگر اس حوالے سے فوری مصالحت کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ تنازع شہباز حکومت کی بنیادیں ہلا سکتا ہے۔

تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان لڑائی کو بھی ووٹ بینک کی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔دونوں جماعتوں میں اصل لڑائی پنجاب کی ہے کیونکہ بنیادی طور پر پنجاب میں دو ووٹ بینک ہیں۔ ایک تحریک انصاف کا ووٹ بینک ہے، دوسرا مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیپلزپارٹی کا کبھی پنجاب میں بہت بڑا ووٹ بینک موجود تھا۔ لیکن آج وہ اپنا یہ ووٹ بینک کھو چکی ہے تاہم اب  وہ پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی بحالی چاہتی ہے۔ جس کیلئے اب اس نے لیگی قیادت اور حکومت کو نشانے پر لے لیا ہے تاکہ نون لیگ مخالف ووٹ بینک حاصل کیا جا سکے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کی سخت مخالفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔  پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ پنجاب میں اسے ن لیگ کے خلاف کھل کر کھیلنا چاہیے۔تا کہ ووٹر انھیں ن لیگ کا حقیقی مخالف سمجھ سکے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ ووٹر بہت سمجھدار ہوتا ہے۔ وہ جعلی کھیل کے جھانسے میں نہیں آتا۔ جعلی لڑائی سب کی سمجھ میں آجاتی ہے۔اس لیے لڑائی کو اصلی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت کے ساتھ اس کی اصلی لڑائی ہو جائے لیکن مرکز جیسا ہے ویسا ہی چلتا رہے۔

آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ ان کے پاس کوئی وزارتیں نہیں ہیں۔ کوئی حکومتی عہدے نہیں ہیں۔ وہ مرکز میں بھی ن لیگ کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی مرکز میں ایک ہی مجبوری ہے کہ وہ شہباز شریف کی حکومت گرا نہیں سکتے کیونکہ انھیں علم ہے کہ اب ن لیگ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اکیلے بھی کام چلا سکتی ہے۔ صرف اہم موقعوں پر مدد چاہیے ہوگی۔ حقیقت میں پیپلزپارٹی حکومتی بینچز پر بیٹھ کر اپوزیشن بننے کا سوچ رہی ہے۔ اس لیے مستقبل قریب میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان پائیدار صلح ہوتی نظر نہیں آرہی۔ تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بڑھتے اختلافات پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے بعد وزیراعظم نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور شہبازشریف نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو طلب کرلیا تاکہ دونوں جماعتوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!