سیاسی مارکیٹ میں مولانا ڈیزل کی ڈیمانڈ کیوں بڑھتی جارہی ہے ؟

جہاں ایک طرف ملک میں ڈیزل کی کھپت میں کمی واقع ہو چکی ہے وہیں ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کے دوران سیاسی حلقوں میں مولانا ڈیزل کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے مولانا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ ملانے کی انتھک کوششیں جاری ہیں۔ تاہم مولانا نے دبے لفظوں میں حکومت کے ساتھ جانے کا عندیہ دے دیا ہے مولانا فضل الرحمن کا 4 ستمبر کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ حکومت فارم 45 کی ہو یا فارم 47 کی یہی حکومت موجود ہیں اسی کے ذریعے ہی ہمیں معاملات آگے بڑھانا ہونگے۔  اس بیان کو سیاسی مبصرین مولانا کے حکومت کے جانب جھکاؤ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ایسی کون سے گیڈر سنگھی ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار پر براجمان حلقوں کیلئے خاص ہو جاتے ہیں؟

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کی پاور پالیٹکس کی سب سے معتبر کتاب ہیں۔ مولانا دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ہمیشہ اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو مولانا کو اپنے معاصرسیاستدانوں میں ممتاز اور منفرد بناتی ہے؟ مبصرین کے مطابق مولانا سب سے زیادہ قادر الکلام ہیں۔  شدت جذبات کی انتہا پر بھی مولانا وہی کہتے ہیں جو وہ کہنے آئے ہوتے ہیں۔ وہ کسی کمزور لمحے کی گرفت میں نہیں آتے۔مناظرے کی روایتی طاقت اور علم الکلام کے فن کو سیاست میں مولانا نے ہی کمال تک پہنچایا ہے۔ مولانادھمکی دیتے اور للکارتے بھی ہیں تو 73 کے آئین کے تحت۔ اس لئے ان پر کوئی گرفت نہیں کر پاتا اور ان کیخلاف کوئی مقدمہ بھی نہیں بن پاتا۔

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے تناظرات سب سے زیادہ ہیں۔ چاہیں تو اسلام کے تناظر میں مقدمہ کھڑا کر دیں، چاہیں تو 73 کے آئین کے تناظر میں دلیل لے آئیں۔ جی میں آئے تو جہاد پر مضمون باندھ لیں اور چاہیں تو جمہوریت کا درس شروع کر دیں۔ تناظرات کا اتنا وسیع دائرہ ان کے کسی حریف کے پاس نہیں۔ناقدین کے مطابق مذہب کارڈ مولانا کی سب سے بڑی قوت ہے۔ عمران خان پوری کوشش کے باوجود اس سے محروم ہیں اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو یہاں مولانا کی عمل داری کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکی ہیں۔

مبصرین کے مطابق مولانا کے کارکنان جیسے قدرتی کارکنان بھی کسی کے پاس نہیں۔ سب کو اپنے کارکنان کا حلقہ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ مولانا اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ ایک مکتب فکر کے مدارس کی افرادی قوت فطری اور قدرتی انداز میں مولانا کا دست و بازو ہے۔ یہ سہولت ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔مولانا کی سٹریٹ پاور غیر معمولی ہے۔ ان کے کارکنان جیسے یکسو کارکنان بھی کسی اور کے پاس نہیں۔ عمران دورِ حکومت میں، جب سب کچھ ایک پیج پر تھا اور پی ڈی ایم سہمی بیٹھی تھی، یہ صرف مولانا تھے جو اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد میں رجز پڑھ رہے تھے۔خدا کا یہ انمول تحفہ صرف مولانا کو ملا ہے کہ ان کا کارکن پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑا ہے اور مولانا جو مرضی فیصلہ کر لیں، وہ سوال نہیں اٹھاتا۔ وہ بغداد کے درویش کی طرح مطمئن ہے۔

مبصرین کے مطابق فہم سیاست کے باب میں بھی مولانا کا کوئی مقابل نہیں۔ نہ مذہبی سیاست میں، نہ عصری سیاست میں۔ مولانا سیاست کی کھلی وادیوں کے مسافر ہیں۔ وہ کسی بند گلی میں داخل ہونے کے قائل نہیں۔ وہ تمام آپشن کھلے رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد فرما سکتے ہیں اور اس سے ان کی اصولی سیاست پر کوئی حرف بھی نہیں آتا۔ اصولی صولی سیاست ان کے ہاں کشتہ مرجان بن جاتی ہیں۔مولانا کی بارگیننگ پاور غیر معمولی ہے۔ تقسیم اقتدار میں جب معاملہ مولانا سے پڑتا ہے تو حصہ بقدر جثہ والی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ان کا حصہ ان کے جثے سے زیادہ ہوتا ہے۔ جلد باز نہیں ہیں، ٹھنڈا کر کے کھانے کے قائل ہیں اور کافی خوش خوراک ہیں۔

ناقدین کے مطابق مولانا سیاست کا نمک ہیں۔ وہ اقتدار میں نہ ہوں تو حزب اقتدار ادھوری ہوتی ہے۔ ادھر حزب اختلاف اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک مولانا اس کا حصہ نہ ہوں۔ سب کی رونقیں ان ہی کے دم سے ہیں۔ ہر گونگے کی گویائی مولانا ہیں۔یہ امریکہ کی طرح ایک چلتی پھرتی ویٹو پاور ہیں۔ 73 کے آئین کے تناظر میں یہ جس پلڑے میں وزن ڈال دیں، وہی بھاری ہو جاتا ہے۔

نیا امریکی صدر ٹرمپ بنے یا کمیلا، پاکستان سے دوستی ممکن کیوں نہیں؟

چنانچہ آج بھی دیکھ لیں وزیراعظم بھی مولانا کے در پر کھڑے ہیں، صدر محترم کا کوچہ یاراں بھی یہی ہے اور تحریک انصاف بھی بڑے پیار سے مولانا کو دیکھتی ہے اور لجاتی ہے کہ ’یہ مولانا میرا بھی تو ہے۔‘ جس وقت ملک میں نظریاتی تقسیم گہری ہو چکی ہے اس دوران بھی مولانا نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک مذہبی رہنما سیکولر سیاست کے تقاضے بھی اس آہنگ سے بخوبی نبھا سکتا ہے کہ ساری سیکولر سیاست اس کے پیچھے آن کھڑی ہوتی ہے۔ وہ بیک وقت سب کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے۔۔

Back to top button