پاکستان میں ریاستی غداروں کی تعداد کیوں بڑھتی جا رہی ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے پاکستانیوں کی ایک اور نسل جوان ہو گئی لیکن ریاست کی جانب سے غدار قرار دیے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ افسوس کہ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے یا اپنا حق مانگنے والے غدار قرار پاتے ہیں۔ یہ معاملہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے آگے بڑھتا ہوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک پہنچ چکا ہے۔
حامد میر روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں کہتے ہیں، وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے کئی ہفتوں بعد میں وادی نیلم کے ایک پہاڑ پر واقع گاؤں گجو خواجہ پہنچا۔ وہاں مجھے ایک سات سال کا بچہ ذیشان مل گیا۔ اُس نے میرے ہاتھ میں جیو کا مائیک دیکھ کر کہا کہ انکل مشرف کو بتائیں کہ سردی آچکی ہے، میرے گاؤں میں ابھی تک کوئی امداد نہیں پہنچی، مجھے یہاں بہت سردی لگتی ہے۔ ذیشان کا یہ پیغام جیو نیوز پر کیپیٹل ٹاک میں نشر ہونے کی دیر تھی کہ ایک بھونچال آگیا ۔ اُسوقت کے غیر آئینی صدر جنرل پرویز مشرف نے یہ پروگرام دیکھتے ہی متعلقہ حکام سے پوچھا کہ گجو خواجہ میں ابھی تک امداد کیوں نہیں پہنچی؟ حکام نے انہیں بتایا کہ امداد تو ہر جگہ پہنچ چکی ہے لیکن حامد میر نے جھوٹ بولا ہے۔ مشرف نے کہا کہ امداد نہ ملنے کی شکایت تو ایک بچے نے کی ہے۔ صدر کو بتایا گیا کہ بچے نے بھی جھوٹ بولا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ ذیشان نام کا کوئی بچہ گجو خواجہ میں نہیں ہے اور حامد میر تو گجو خواجہ گیا ہی نہیں کیونکہ اس گاؤں تک جانیوالی سڑک زلزلے کے باعث ٹوٹ چکی ہے، ابھی تک سڑک مرمت نہیں ہوئی، یہ بھی کہا گیا کہ حامد میر نے حکومت کو بد نام کرنے کیلئے ایک بچے کا جھوٹا بیان نشر کیا ہے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ یہ سُن کر جنرل مشرف غصے میں آ گئے۔ انہوں نے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیدیا۔ تب کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل شوکت سلطان پی ٹی وی کے ایک پروگرام نیوز نائٹ میں نمودار ہوئے اور مجھے ’’اینٹی اسٹیٹ‘‘ قرار دیدیا۔ اگلے دن وائس چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل احسن سلیم حیات بہت سے صحافیوں کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر گجو خواجہ پہنچ گئے۔ یہ سب سات سالہ ذیشان کو ڈھونڈنے آئے تھے کچھ ہی دیر میں انہیں ذیشان مل گیا۔ ذیشان نے بتایا کہ حامد میر ایک خچر پر بیٹھ کر آیا تھا، وہ پوچھ رہا تھا اس گاؤں میں امداد پہنچی ہے یا نہیں تو ہم نے اُسے بتایا ہے کہ گجو خواجہ میں ابھی تک کوئی امداد نہیں پہنچی۔ سات سالہ ذیشان کی گواہی پی ٹی وی کے کیمرے پر ریکارڈ تو ہوئی لیکن نشر نہ کی گئی۔ حامد میر کہتے ہیں کہ میں یہ واقعہ بھول چکا تھا لیکن گزشتہ شام سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب میں ایک صحافی نے مجھے یہ واقعہ یاد دلایا اور بتایا کہ وہ بھی اُس ہیلی کاپٹر پر سوار تھا جو آپکو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے گجو خواجہ پہنچا تھا۔ اس صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ بیس سال پہلے بھی آپکو پی ٹی وی پر ریاست کا دشمن قرار دیا جاتا تھا لیکن آج بھی آپ کشتی پر سفر کرتے ہوئے سیلاب زدہ علاقوں کے مسائل اجاگر کرتے ہیں تو وزیر اطلاعات پنجاب آپکو پنجاب کا دشمن قرار دیتی ہے۔ آپ لاپتہ افراد کا مسئلہ اُٹھاتے ہیں تو ’’مارخور‘‘ کے نام سے نامعلوم اکاؤنٹ آپکو بی ایل اے کا ہمدرد قرار دیتا ہے۔ بیس سال میں کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔ آپ نے یہ ملک چھوڑنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا؟ میں نے اس صحافی دوست کو بتایا کہ 2007 کی وکلاء تحریک کے دوران جب میرے بچوں پر سکول جاتے ہوئے حملہ کیا گیا تو بھی میں پاکستان چھوڑ کر نہیں بھاگا۔ مجھ پر پابندی لگ گئی لیکن میں نے اس کے خلاف مزاحمت کی اور کچھ ماہ کے بعد ٹی وی سکرین پر واپس آگیا ۔ پھر میری گاڑی کے نیچے بم لگایا گیا، کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا اور مختلف کیسز میں پھنسایا گیا لیکن میں نے پاکستان چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ حکومتیں بدلتی رہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ جو مجھے غدار قرار دیتے تھے وہ کبھی مجھے ہلال امتیاز اور کبھی تمغہ امتیاز سے نواز کر خود کو جھوٹا ثابت کرتے رہے۔ اصل طاقت تو اللہ کے پاس ہے اور جب اس پر بھروسہ ہو تو کوئی مشکل نہیں۔ ویسے بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے والےعام پاکستانیوں کو چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی آپشن پر میں نے کبھی غور نہیں کیا۔ تاہم مجھے یہ افسوس ہے کہ پچھلے پچیس سال میں ایک اور نسل جوان ہو گئی لیکن ریاست پاکستان اپنے غداروں کی تعداد میں اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے ۔ جو بھی ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرے یا اپنا حق مانگے وہ غدار قرار پاتا ہے۔ یہ معاملہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے آگے بڑھتا ہوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک پہنچ چکا ہے۔ ریاستی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اب پنجابی عصبیت کو ہوا دی جارہی ہے۔
مریم حکومت بے نظیر کارڈ کے مقابلے میں اپنا کارڈ کیوں لے آئی
حامد میر کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ایسے لوگوں کی سرپرستی کررہی ہے جو سندھیوں اور پختونوں کی توہین پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر آپ مسئلہ فلسطین پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے موقف کی حمایت کریں تو پنجاب کے کچھ دانشور آپکو جذباتی اور گمراہ قرار دیدیتے ہیں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستان کو سنبھالیں یا تمہارے فلسطین کو سنبھالیں؟ میں جواب میں یاد دلاتا ہوں کہ انہی فلسطینیوں کی قربانیوں کے باعث پاکستان اور سعودی عرب میں ایک دفاعی تعاون کا معاہدہ طے پایا ہے۔ ان دونوں ممالک کو فلسطین پر ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہئے جو فلسطینیوں کو متحد کرے اُنہیں تقسیم نہ کرے ۔ جناح نے تقسیم فلسطین کو مسترد کیا تھا لیکن اب تو ان کی تعلیمات کا حوالہ دینے پر بھی اس ملک میں غداری کے الزامات لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے جو نعرے کل تک بلوچستان میں لگ رہے تھے وہ آج خیبر پختونخوا اور مظفر آباد تک پھیل گے ہیں۔ یہ دراصل ہماری اینٹی جناح پالیسیوں کا نتیجہ ہے، لہذا جناح کی طرف واپس آئیں کیونکہ وعدہ یاد دلانے والوں کو غدار قرار دینا کسی مسئلے کا حل نہیں۔
