پاکستانی فوج TTP کی کمر توڑنے میں ناکام کیوں ہے؟

حالیہ چند ماہ کے دوران خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہاں تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تواتر کے ساتھ ہونے والے ان حملوں میں جدید ہتھیاروں کے ساتھ ڈرونز بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ فوج اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی ان حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ تاہم ہماری سیکیورٹی فورسز طالبان دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
ان حملوں کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح الفاظ میں افغان طالبان حکومت کو پیغام دیا ہے کہ اسے پاکستان یا تحریک طالبان، دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ پاکستان بارہا یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی ٹی ٹی پی کو افغان طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے، تاہم افغان حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آنے کے بعد پاکستانی فضائیہ نے افغان سرحد پر موجود تحریک طالبان کے ٹھکانوں پر محدود پیمانے پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کا اظہار سرکاری اعداد و شمار سے بھی ہوتا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال یعنی 2024 میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور 2024 میں ہونے والے حملوں کی تعداد 2023 کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ تھی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے مطابق جنوری 2025 سے اگست 2025 تک صوبے میں شدت پسندی کے کُل 766 واقعات پیش آئے جن میں 166 سکیورٹی اہلکار، 92 پولیس اہلکار، اور 159 عام شہری مارے گے۔ جب کہ اس دورانیے میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد 293 رہی۔
خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں سب سے زیادہ حملے ہوئے اُن میں بنوں، شمالی وزیرستان، خیبر اور باجوڑ کے اضلاع سرِفہرست ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والا جانی نقصان پچھلے سال کی نسبت کم ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی جو کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، اقوام متحدہ کی 202 کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے افغان طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اِس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد ساڑھے چھ ہزار ہے۔
ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور بظاہر ٹی ٹی پی پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے اتنا بڑا اور مشکل چیلینج کیوں بن گئی ہے؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود کو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے ہر طرح کی مدد حاصل مل رہی ہے جس کی بدولت اس کی عسکری طاقت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بیاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ مولوی فضل اللہ کی 2018 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے دو ماہ بعد مفتی نور ولی محسود کو اس کالعدم تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق بطور سربراہ ٹی ٹی پی نور ولی محسود نے جو نئی حکمت عملی ترتیب دی، اُس میں ناراض اور ماضی میں ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہو جانے والے چھوٹے شدت پسند گروہوں کو واپس اپنے ساتھ ملانا شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پراپیگنڈا مشینری کے ذریعے اس بیانیے کو فروغ دیا کہ ٹی ٹی پی عوام کے خلاف نہیں بلکہ اس کی کارروائیاں مکمل طور پر فوج اور سکیورٹی اداروں کے خلاف ہیں۔ ٹی ٹی پی اپنی اِسی نئی حکمت عملی کے تحت صرف پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی حالیہ کارروائیوں کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ گروہ عام شہریوں کو ٹارگٹ نہیں کر رہا۔ ایسا کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ عام افراد کی ہمدردیاں اُنھیں حاصل رہیں۔ اب طالبان پولیس اور فوج کی اہلکاروں کو نشانہ بنا کر فزیکل سپیس حاصل کرنا چاہتے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب کسی ایک علاقے میں طالبان کے حملے زیادہ ہوں گے، اور پولیس پیچھے ہٹے گی تو انہیں وہاں کا قبضہ لینے کا موقع مل جائے گا۔ اسکے علاوہ وہ سوشل سپیس اس طرح حاصل کرتے ہیں کہ لوگوں کے باہمی تنازعات کے فیصلے کرنے لگتے ہیں، پھر یہ تشہیر کی جاتی یے کہ دیکھو جو فیصلہ سرکاتی عدالتیں کئی برسوں میں نہ کر پائیں، ہم نے وہ چند دنوں میں کر دیا۔
شہباز حکومت ٹیکس اصلاحات کے نعرے سے پیچھے کیوں ہٹی؟
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے پہلے پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا۔ لیکن امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی کے لیے راستے کُھل گئے۔ افغانستان کی جیلوں کے دروازے کُھل گئے، اور گرفتار ٹی ٹی پی رہنما باہر آ گے۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو منظم کیا اور پاکستان میں بھی قدم جمانے شروع کر دیے۔ دودتی جانب پاکستان اس خوش فہمی میں رہا کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اسی دوران انھیں پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا اور یہی طالبان کے دوبارہ منظم ہونے اور ان کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجوہات ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سربراہ کمانڈر نور ولی محسود نے طالبان کے اہم دھڑوں سمیت 80 چھوٹے بڑے شدت پسند گروپس کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جس کے بعد پاکستانی فوج اور پولیس پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکے علاوہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی طرز پر ایک سسٹم کے تحت ریاست پاکستان کے خلاف جاری جنگ کو منظم کیا ہے۔ 2025 کے آغاز میں ٹی ٹی پی نے اپنے شیڈو سٹرکچر کا اعلان کرتے ہوئے 1200 عہدیداروں کا اعلان کیا، جس میں خیبر پختونخوا کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر نیٹ ورک کا قیام شامل تھا اسی طرح بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے بعض اضلاع میں بھی اسی قسم کا شیڈو نیٹ ورک بنایا گیا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان ایک ایسی تحریک بن گئی ہے جو پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کے دفاع کی باتیں بھی کر رہی ہے، تاکہ وہاں موجود علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں کو بھی اپنے ساتھ ملا سکیں۔ پاکستان میں تحریک طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہت جلدی میں کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں کافی اسلحہ پیچھے چھوڑنا پڑ گیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ جدید ترین اسلحہ بلیک مارکیٹ میں پہنچا اور پھر تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کے ہاتھ لگا، یوں اس کی عسکری صلاحیت میں دوگنا اضافہ ہو گیا۔
