اچکزئی کی قیادت میں افغانستان کا دورہ ناکام کیوں ہو گا ؟

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے محمود خان اچکزئی کی زیر قیادت افغانستان جانے والے بے اختیار وفد کی ناکامی یقینی دکھائی دیتی ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں افغانستان وفد ایسے وقت میں بھجوایا جا رہا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، اور سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی وفد کے اس مجوزہ دورہ افغانستان سے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تقسیم اور عدم ہم آہنگی کھل کر سامنے آ گئی ہے بلکہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر سیاسی جماعت اپنے طور پر خارجہ پالیسی چلانے کی مجاز ہے؟ اگر ایک طرف وفاقی حکومت طالبان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کر رہی ہے، تو دوسری طرف ایک صوبائی جماعت، اپنی حمایت یافتہ شخصیات کے ذریعے، انہی طالبان کے ساتھ "امن مذاکرات” کی کوششیں کیسے کر سکتی ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ تاہم دہشتگردی کی نئی لہر سے متحد ہو کر نمٹنے کی بجائے طالبان بارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حکمتِ عملی ایک دوسرے سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک جانب وفاقی حکومت کھلے الفاظ میں افغان طالبان کوٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کرنے کی وارننگ دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے اور طالبان سے بات چیت کی راہیں ہموار کرنے میں مصروف ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ تضادات افغانستان اور پاکستان کے مابین مزید بداعتمادی کو جنم دے سکتے ہیں ایسے میں محمود خان اچکزئی جیسے قوم پرست اور متنازعہ سیاستدان کو ایک نام نہاد "سفارتی وفد” کا سربراہ بنانے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا وہ پاکستان کی ریاستی پالیسی کی نمائندگی کر سکیں گے؟ یا پھر یہ دورہ بھی پاکستان کی داخلی تقسیم کا ایک اور مظاہرہ بن کر رہ جائے گا؟ تاہم اچکزئی کی زیر قیادت افغانستان جانے مجوزہ وفد کی افادیت اور مقصدیت پر مبصرین کی رائے منقسم ہے۔ ایک طرف اسے پشتون علاقوں میں قیام امن کے لیے ایک سنجیدہ کوشش کہا جا رہا ہے، تو دوسری طرف اسے محض سیاسی علامت یا ’اختیار سے محروم وفد‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق افغانستان جانے والا وفد بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا ایک سیاسی حربہ ہے لیکن اس سے کوئی بڑا نتیجہ برآمد ہونے کی امید کم ہے کیونکہ افغانستان جانے والا پی ٹی آئی وفد وہاں جاکر مذاکرات میں ایسا کیا پیش کرے گا جو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے لیے قابلِ قبول ہو۔ وفد کی قیادت کرنے والے محمود اچکزئی کے پاس نہ کوئی اتھارٹی ہے اور نہ ہی کوئی اختیار ایسے میں وہ افغان طالبان کو راضی کرنے کے لیے افغانستان کیا لے کر جائیں گے اور افغان طالبان بے اختیار وفد کی باتوں کو اہمیت کیوں دیں گے؟
مبصرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے تعلقات عشروں سے کشیدگی، بداعتمادی اور باہمی مفادات کے پیچیدہ جال میں الجھے ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی پشت پناہی، سرحدی تنازعات، افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت اور معاشی معاملات ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ ایسے میں جب پاکستان ملک میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں کو ٹی ٹی پی کی کارستانیاں تصور کرتا ہے اور طالبان کی سرکوبی کیلئے فوجی آپریشن جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے ایسے میں پی ٹی آئی کے وفد کا دورہ افغانستان ریاست کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حال ہی میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کو دوٹوک پیغام دیا کہ وہ یا تو دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی ترک کریں یا پاکستان کے ساتھ تعلقات قربان کریں۔ ایسے وقت میں کسی بھی غیر ریاستی یا نیم ریاستی وفد کابغیر حکومتی منظوری یا مشاورت کے افغانستان جانا نہ صرف پاکستان کی پالیسی میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے بلکہ افغان قیادت کو بھی الجھن میں ڈال سکتا ہے کہ مذاکرات کس فریق سے کرنے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق محمود خان اچکزئی کی قیادت میں افغانستان جانے والا مجوزہ وفد فیصلہ کن سفارتی طاقت اور اختیار سے محروم ہے۔ جب تک وفاقی حکومت اس عمل کی تائید اور افغان طالبان اسے ایک مؤثر ثالث تسلیم نہیں تب تک اس طرح کی کوئی بھی کوشش فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وفود، جرگے اور مذاکرات تب ہی کارگر ہوتے ہیں جب انھیں ریاستی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہو۔ محمود خان اچکزئی کی ذاتی ساکھ اور پشتون علاقوں میں مقبولیت اپنی جگہ، مگر اس وقت اصل ضرورت ریاستی سطح پر مربوط اور واضح پالیسی کی ہے۔ورنہ ایسے اقدامات وقتی سرخیاں تو بنا سکتے ہیں، تاہم اسیے دوروں سے دیرپا نتائج کی امید رکھنا ایک دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
