سب کو ناراض کرنے والا ٹرمپ پاکستان سے یاری کیوں ڈال رہا ہے؟

تحریک انصاف کے حامی اس وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد اپنے کینیڈا جیسے ہمسائے اور اتحادی کو بھی ناراض کر دینے والے صدر ٹرمپ نے اس پاکستانی حکومت کو 397 ملین ڈالرز کی خطیر رقم دینے کا فیصلہ کیوں کیا جس نے عمران خان کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔ دراصل اس رقم کا مقصد پاکستان کے F-16 طیاروں کو دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے لئے جدید آلات سے لیس کرنا ہے۔
سینیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ اس سوال نے عمران خان کے حامیوں کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ انکے خیال میں تو ٹرمپ پاکستان کے موجودہ حکومتی سیٹ اپ سے نفرت کرتا ہے۔ نصرت کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی‘‘ ہمارے خطے میں ہمیشہ طالبان سے منسوب ہوتی رہی ہے جن کا مرکز افغانستان ہے جہاں سے ٹرمپ ہی نے 21 سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی افواج کے انخلاء کا اعلان کیا تھا۔ لہٰذا اس سوال کا جواب جاننا بھی ضروری تھا کہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی یقینی بنانے والا ٹرمپ اب ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کی تیاری کیوں کر رہا ہے۔ بالآخر 4 مارچ 2025 کو امریکی کانگریس کے اجلاس سے طویل خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک حوالے سے اس سوال کا جواب ازخود فراہم کردیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور دہشت گردی سے نبردآزما اداروں نے اس شخص کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا ہے جو 26 اگست 2021 کو کابل ائیر پورٹ پر ہونے والے ہولناک واقعہ کا منصوبہ ساز تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان مستقبل میں بھی امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی تعاون جاری رکھے گا۔ یاد رہے کہ کابل ایئرپورٹ پر ایک خوفناک خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھی اور 170 افغان شہری اپنی جانوں سے گئے۔ اس خودکش دھماکے نے پورے امریکہ کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔
امریکی میڈیا اور انکے سیاسی مخالفین نے تب کے امریکی صدر جوبائیڈن کی نا اہلی کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ جواب میں بائیڈن کے حامیوں نے ڈھٹائی سے یہ یاد دلانا شروع کر دیا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلاء کا فیصلہ جو بائیڈن نے نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کے ذریعے قطر کے شہر دوحہ میں مذاکرات کے دوران کیا تھا اور یہ کہ بائیڈن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہوئے اس معاہدے پر عملدرآمد پر مجبور تھا۔ لیکن ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن جماعتوں کے نمائندے اس سوال کو فراموش کرگئے کہ اگست 2021 میں ہوئے اس ہولناک دھماکے کا ذمہ دار کون تھا اور یہ بھی کہ اس کی گرفتاری درکار ہے یا نہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ٹرمپ سادہ ضرور نظر آتا ہے مگر بھولا نہیں۔ بائیڈن کو شکست دینے کے باوجود وہ امریکی عوام کو یہ ثابت کرنے پر بضد ہے کہ اس کا پیشرو ان کے ملک کی تاریخ کا ’’احمق اور نکما ترین‘‘ صدر تھا۔ اس مقصد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے نومبر کا انتخاب جیتنے کے بعد سکیورٹی امور بارے بریفگنز لیتے ہوئے ٹرمپ جاسوسی اداروں سے مستقل 26 اگست 2021 کے واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہا۔ ان دنوں جو شخص سی آئی اے کا سربراہ ہے اس کا نام جان ہے جو ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں قومی انٹیلی جنس کا چیف تھا۔
یہ شخص ہر صبح امریکی صدر سے مل کر اسے 18 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات سے آگاہ رکھتا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر جان مصر رہا کہ 26 اگست 2021 کے دن کابل ایئرپورٹ پر ہوئے خودکش دھماکے کا اصل منصوبہ ساز شریف اللہ جعفر ہے جو ازبکستان سے فرار ہوکر افغانستان آ گیا تھا اور بعد ازاں داعش خراسان میں شامل ہو گیا۔ اسے داعش کا کمانڈر ہونے کی وجہ سے اشرف غنی حکومت کے دوران گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن امریکی فوجی انخلا کے بعد فاتح کی طرح کابل لوٹتے ہوئے طالبان نے 15 اگست کو جیل توڑ کر وہاں مقید تمام افراد رہا کر دئے۔
نصرت جاوید کے بقول امریکی انٹیلی جنس اداروں کا خیال ہے کہ دوران قید ہی شریف اللہ جعفر نے کابل ایئرپورٹ پر خودکش دھماکے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور رہا ہوتے ہی اس نے اپنے منصوبہ پر عملد درآمد یقینی بنا دیا۔ لیکن کابل ایئرپورٹ پر ہوئے خودکش دھماکے کے بعد شریف اللہ افغانستان تک محدود نہیں رہا۔ اس نے 9 افراد پر مشتمل ایک گروپ بنایا جو کہ افغانستان، تاجکستان، روس اور ایران کے درمیان سفر کرتے رہے۔ اس گروپ نے ایران کے شہر کرمان میں خودکش بمبار کے ذریعے 100 سے زیادہ افراد کی جان لی۔ لیکن اس گروپ نے سب سے خوفناک واردات ماسکو میں مارچ 2024ء میں سرانجام دی جب داعش کے چار نقاب پوش شوٹرز نے ایک میوزک تھیٹر میں گھس کر 200 سے زائد سامعین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا کر مار ڈالا۔
اب یہ اطلاع آرہی ہے کہ امریکہ نے شریف جعفر کے گروپ پر مستقل نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ امریکہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے ایران اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات خراب ہونے کے باوجود ان دونوں ممالک کو خبردار کیا تھا کہ ان کی انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق داعش کا یہ گروپ بڑے لیول کی دہشت گرد کارروائی کرنے والا ہے۔ ٹرمپ کو یہ سب معلومات ملیں تو اس نے اس گروپ کی گرفتاری کو اولین ترجیح قرار دے دیا۔ اپنے انٹیلیجنس چیف کے توسط سے اس نے امریکی فوج کو بھی اس ضمن میں تیار رہنے کا پیغام دیا۔ قابل اعتماد ذرائع سے گفتگو کے بعد اب میں یہ خبر دے سکتا ہوں کہ پاکستان اور امریکی افواج کے مابین ایک خلیجی ملک میں اعلیٰ ترین سطح پر روابط ہوئے جن کے دوران فیصلہ ہوا کہ شریف اللہ کی قیادت میں متحرک گروہ پر کڑی نگاہ رکھی جائے گی اور اسکے اراکین کو زندہ گرفتار کرنا اولین ترجیح ہو گی۔
نصرت جاوید کے مطابق 20 جنوری کو ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو عاشقان عمران خان اپنے محبوب کی رہائی کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن ٹرمپ نے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے شریف اللہ کی گرفتاری کا ٹاسک دیا۔ سی آئی اے کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے مابین کم از کم چار مرتبہ براہ راست رابطے ہوئے۔ ان کے نتیجے میں پاکستان کو شریف اللہ اور اس کے گروہ کی لوکیشن معلوم ہوگئی۔ مصدقہ لوکیشن کے حصول کے بعد شریف اللہ جعفر کو گرفتار کر کے پاکستان سے امریکہ بھجوا دیا گیا جس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے کانگرس سے اپنے پہلے خطاب کے دوران باقاعدہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یوتھیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
پاکستانی حکومت نے ٹرمپ کو رام کرنے کے لیے ماسٹر سٹروک کھیل ڈالا
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ شریف اللہ جعفر کے خلاف امریکہ میں جو مقدمہ چلایا جائے گا اس کے دوران اسے سزا دلوانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان سے مختلف النوع حوالوں سے تعاون درکار ہو گا کیونکہ اس نے پہلا اقبالی بیان اور اعتراف جرم بھی پاکستانی ایجنسیوں کے سامنے ہی کیا۔ ایسے میں ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستان فون کرنے کی بیوقوفی نہیں کرے گا۔ اس کی ترجیح امریکی عوام کو ثابت کرنا ہے کہ ’’احمق بائیڈن‘‘ امریکی فوجیوں کے جس قاتل کو گرفتار نہیں کرواسکا تھا ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی اسے پکڑ لیا اور امریکی عدالت سے سزا بھی دلوا دی۔ اس ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لئے اسے پاکستان کے موجودہ حکومتی بندوبست کی مدد درکار ہے اور وہ مستقبل میں بھی حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرتا رہے گا۔