کیا مریم حکومت پی ٹی آئی کے معطل اراکین کوڈی سیٹ کرواپائےگی؟

پنجاب اسمبلی ایک بار پھر سیاسی محاذ آرائی کا مرکز بن چکی ہے۔ پنجاب حکومت نے اپوزیشن کی مکمل زبان بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے مریم نواز کی خواہش پر معطل 26اراکین کو ڈی سیٹ کروانے کیلئے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے معطل اراکین کو الیکشن کمیشن سے ڈی سیٹ کروانے کیلئے سپیکر آفس کی محکمہ قانون پنجاب سے مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ مریم حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جلد اس حوالے سے ریفرنسز دائر کر دئیے جائیں گے۔ مبصرین کے مطابق مریم نواز حکومت کی جانب سے معطل پی ٹی آئی اراکین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب حکومت ریفرنسز کے ذریعے پی ٹی آئی اراکین کی ڈی سیٹ کروا پائے گی؟ کیا یہ ڈی سیٹنگ محض ایک قانونی عمل ہے یا حکومت کی سیاسی برتری قائم رکھنے کی کوشش؟کیا یہ قانونی اقدام سیاسی استحکام لائے گا یا نیا بحران پیدا کرے گا؟ کیا اس فیصلے سے جمہوری عمل مضبوط ہوگا یا مزید متنازع؟ یہ سب آنے والے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے اس فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

 اسمبلی ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن کے 26 معطل اراکین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لئے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ نے تمام ضروری دستاویزات جمع کر لئے ہیں۔دستاویزات میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ بھی شامل ہے ۔پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے متعلق تمام آڈیو، ویڈیو اور دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس میں شامل کئے گئےہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی جانب سے الیکشن کمیشن میں دائر کئے جانے والے مجوزہ ریفرنس میں استدعا کی گئی ہے کہ اپوزیشن نے اپنے پارلیمانی لیڈر کی بات نہیں مانی اور ایوان میں احتجاج کیا جو پارلیمانی روایات اور قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ قانونی طور پر پارٹی اراکین پارلیمانی لیڈر کی بات ماننے کے پابند ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس بات کو ریفرنس میں معطل اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا جواز بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسپیکرپنجاب اسمبلی کی جانب سے دائر ریفرنس پر ارکان اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے فیصلوں کی نظیر پہلے بھی موجود ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر آفس کی جانب سے ریفرنس کو مضبوط بنانے کیلئے سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے خلاف عدالتی فیصلہ کی نظیرکو بھی ریفرنس کا حصہ بنایا ہے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی اراکین کی معطلی اورانھیں دی سیٹ کروانے کیلئے ریفرنس بارے  پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کا کہنا ہےکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ایوان کے کسٹوڈین بنیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ڈکٹیشن مت لیں۔ مریم نواز حکومت جان لے”ہم حکومتی ہتھکنڈوں سے نہیں ڈریں گے اور اپنا احتجاج آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔‘‘

تاہم پی ٹی آئی اراکین کی معطلی بارے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایوان میں اپوزیشن کا احتجاج اور ان کے خلاف کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے: ”خود مسلم لیگ ن بھی میاں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب اسمبلی میں ایسے ہی احتجاج کرتی رہی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی اپوزیشن ارکان کے احتجاج پر الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف ریفرنس بھیج رہے ہیں۔‘‘ پی ٹی آئی ارکان کے معطل اراکین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ پاکستان کی زوال پذیر جمہوریت میں کیے جانے والے ایک زوال پذیر احتجاج پر ایک غلط فیصلہ ہے۔ یہ ایک سخت سزا ہے اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے

خیال رہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے ضیا کے آمرانہ دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی خواہش پر پنجاب اسمبلی میں غل غپاڑہ کرنے والے 26پی ٹی آئی ارکان پر نہ صرف 15 اجلاسوں کے لیے ایوان کے دروازے بند کر رکھے ہیں بلکہ ان کے ایوان میں داخلے پر بھی پابندی عائد ہے جبکہ اب معطل اراکین کو ڈی سیٹ کروانے کیلئے عملی اقدامات کا بھی آغاز کر دیا ہے۔لیگی رہنما، سپیکر پنجاب اسمبلی کے پی ٹی آئی اراکین کی معطلی کے فیصلے کو قانون کی بالادستی قرار دے رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی حلقوں کے مطابق ملک احمد خان کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی کے علاوہ سیاسی انتقام کی ایک بدترین مثال ہے، دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں لڑائیاں اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن اس طرح اتنی بڑی تعداد میں اراکین کو معطل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی منتخب اراکین کو ڈی سیٹ کروانے کی کوئی نظیر موجود ہے۔ حقیقت میں سپیکر پنجاب اسمبلی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو خواہش پر اپوزیشن کی زبان بندی کیلئے یہ قدم اٹھا رہے ہیں لیکن حکومت کو اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایسے رویے پر اراکین کو معطل کرنے اور اسمبلی کارروائی سے روکنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس کا آغاز سنہ انیس سو پچاسی میں بغیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں اس وقت ہوا تھا جب اسپیکر میاں منظور احمد وٹو کے زیر صدارت اجلاس میں صدر جنرل ضیا الحق پر اعتراض کرنے پر فیصل آباد سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے منتخب رکن فضل حسین راہی کو باہر نکال دیا تھا۔اس کے بعد اس میں شدت جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسپیکر محمد افضل ساہی کے زیر صدارت اجلاس میں آئی، جس میں دو روز کے اندر یکے بعد دیگرے نو اراکین کو معطل کیا گیا۔ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ ن کے دور میں بھی رہی، لیکن اس کی شدت کم رہی۔ مگر پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایک بار شدت آئی اور اٹھارہ اراکین کو اس وقت کے اسپیکر سبطین خان نے معطل کردیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اراکین کو معطل کرنے کی شدت والے مواقع پر اسپیکر محمد افضل ساہی اور محمد سبطین خان کے ادوار میںچودہری پرویز الٰہی پنجاب کے اسپیکر تھے۔ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ ایس کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن ایوان میں آئے یا نہ آئے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ ان کے دور میں پچاس کے قریب اپوزیشن اراکین کیخلاف مقدمہ درج کروانے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔ تاہم اب مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اپوزیشن کے 26 ارکان کو 15 اجلاسوں کے لیے پنجاب اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے جبکہ معطل اراکین کو الیکشن کمیشن سے ڈی سیٹ کروانے کیلئے قانونی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پنجاب حکومت اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام؟

Back to top button