کیا فلسطینی ریاست کے قیام پر پاکستان اسرائیل کو مان لے گا؟

پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے خطے میں دیرپا امن کی خاطر ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز کو ناگزیر تو قرار دے دیا ہے، لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟
یاد رہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے مجوزہ منصوبہ پیش کیا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر شروع سے ہی اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ خود شہباز شریف بھی اس حوالے سے ایکس پر پیغام جاری کر چکے ہیں جبکہ نائب وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ آٹھ اسلامی ممالک مجوزہ منصوبے کے تحت ایک امن فورس تعینات کریں گے اور پاکستان بھی اس بارے فیصلہ کرے گا۔ اس اعلان کے بعد جہاں غزہ میں دو سال سے جاری بمباری کے بعد امن کی امید پیدا ہوئی ہے وہیں مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے دو ریاستی حل کے اصولی موقف میں تبدیلی کا کا شک بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک حلقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ کئی صارفین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم ’عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کیسے صدر ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کر سکتے ہیں؟‘ سابق سفیر عبدالباسط نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تمام مسلمان ممالک کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کو ’سرینڈر‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے ایکس پر مشترکہ بیان کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلمان دنیا نے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس اعلامیے میں فلسطینی ریاست کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان اگر فلسطین کی ریاست کے قیام سے قبل ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر کئی دہائیوں سے پاکستان کا ایک تاریخی موقف رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ماضی میں یہ کئی بار دہرایا گیا ہے کہ پاکستان ’فلسطینیوں کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد اور 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی جدودجہد میں فلسطینی عوام کے ساتھ ہے جسکا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ’مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘
لہذا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فلسطین کے لیے دو ریاستی پالیسی کیا ہے؟ ویسے بھی 20 نکاتی امن منصوبے میں بغیر کسی الحاق کے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بات کی گئی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فلسطین کے بارے میں پاکستانی پالیسی محمد علی جناج کے اس بیان کی عکاس ہے جس کے مطابق ’جب تک فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں مل جاتے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا ہے۔‘ اگلے روز جب نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی اس ضمن میں بڑی واضح پالیسی ہے جس میں کوئی تبدیل نہیں کی گئی ہے۔‘ تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید کچھ نہیں کہا۔
پاکستان کا ماننا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کی سرحدیں جون 1967 سے پہلے کی ہوں گی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ فلطسین کے تنازع کا حل اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی قرارداد پر عمل درآمد کے تحت ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ جون 1967 میں اسرائیل کی مصر، اردن اور شام کے ساتھ جنگ ہوئی جو چھ دن تک جاری رہی تھی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے اُس وقت مصر کے کنٹرول میں موجود غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینا، اردن کے قبضے میں موجود مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کا حصہ اپنے کنٹرول میں لیا تھا۔ اس جنگ کے دوران شام کے زیر کنٹرول گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا تھا۔
اس جنگ میں ان علاقوں کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اسرائیل کی سرحدی حدود میں تین گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس جنگ کے بعد مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور کچھ علاقوں کا قبضہ واپس لے لیا لیکن مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم یہ تنیوں علاقے فلسطین اور اسرائیل کے مابین متازع علاقے ہیں۔ کئی دہائیوں تک بین الاقوامی برادری نے اسرائیل کا ان علاقوں کے ساتھ الحاق تسلیم نہیں کیا تھا لیکن 2017 میں امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور امریکہ سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا۔
اس کے بعد 2019 میں ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خودمختاری کو بھی تسلیم کر لیا لیکن اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو تا حال مقبوضہ علاقہ ہی تصور کرتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کی حمایت کے بعد یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟ سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر پاکستان کی پالیسی ملک کی جوہری پالیسی اور کشمیر پالیسی کی طرح بہت واضح ہے جسے ’کوئی حکومت یا وزیراعظم تبدیل نہیں کر سکتا۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کو بھی ایک ریاست تسلیم کیا جائے کیونکہ اسرائیل تو پہلے ہی ایک ریاست ہے۔ اس کا مطلب ’یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔‘
لیکن قائداعظم یونیوسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس کا موقف مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کے لیے پاکستان کا اُصولی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق ہے، یعنی وہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جس کا مطلب فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔لیکن مشاہد حسین سید کے مطابق اسرائیل ایک جارحیت پسند ملک ہے اور اس کا فلسطین پر غیر قانونی قبضہ ہے جسے پاکستان تسلیم نہیں کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اور فلسطین میں قیام امن ’دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اس وقت مسئلہ غزہ میں جنگ بندی ہے۔‘
فوج حکومت کے ماتحت ہے یا حکومت فوج کے نیچے لگی ہے؟
ادھر ڈاکٹر قندیل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ ایک جذباتی معاملہ ہے اور مذہبی جماعتیں تو اسرائیل کو غیر قانونی تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بھی حمایت نہیں کرتیں۔ اسی لیے سیاسی جماعتیں بھی ابہام کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ عوامی سطح پر رائے بہت واضح ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں پاکستان نے دو ریاستی حل پر زیادہ بات کرنا شروع کر دی ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں حکومتی سطح پر پالیسی میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن عوام رائے بہت دوٹوک اور واضح ہے۔
