فوج حکومت کے ماتحت ہے یا حکومت فوج کے نیچے لگی ہے؟

معروف لکھاری اور کئی کتابوں کے مصنف محمد حنیف نے کہا ہے کہ ہم خود بھی سیاستدانوں کی بے عزتی کرتے ہیں، ان کی بے عزتی ہوتے دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی سیاستدان کسی انٹرنینشل فورم پر اور انگریزی زبان میں اپنا، اپنی پارٹی کا، اپنی حکومت کا دفاع نہ کر پائے تو ہمارا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف معروف صحافی مہدی حسن کے سامنے اپنی ہائبرڈ حکومت کے دفاع میں آئیں بائیں شائیں کرتے پائے گئے تو ہم خوش ہوئے کہ دیکھو پاکستان کی اسمبلی میں تو کھڑے ہو کر سب کو للکارتا ہے، اپنوں کو بھی نہیں بخشتا، پاکستان کے ٹی وی شوز میں کیسے دھڑلے سے بولتا ہے لیکن پہلی دفعہ سخت سوالات کا سامنا ہوا تو بے بس نظر آئے۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنی تحریر میں حنیف کہتے ہیں کہ پاکستانی صحافی بھی خواجہ آصف سے سخت سوال پوچھتے ہیں لیکن جس طرح مہدی حسن نے ان سے پوچھا کہ فوج آپ کے ماتحت ہے یا آپ فوج کے، ایسا سوال کوئی پاکستانی اینکر سیدھے منھ کے ساتھ نہیں پوچھ سکتا ہے۔ جس سوال کا جواب پوری قوم کو معلوم ہے، نجانے مہدی حسن نے وہ سوال خواجہ آصف سے کیوں کیا؟
محمد حنیف کہتے ہیں کہ مہدی حسن بہت پڑھے لکھے ہوں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ انھیں وزارتِ دفاع کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ خواجہ آصف نے اس انٹرویو میں خود فرمایا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور میری تعیناتی بھی سیاسی ہے۔
پاکستان میں وزیرِ دفاع ایسے وفادار کو بنایا جاتا ہے جو اپنی سیاسی حکومت کی بے بسی کا بوجھ خندہ پیشانی کے ساتھ اٹھا سکے، اپنے لیڈر کی توہین اپنے سر لے اور ساتھ فائل اِدھر سے اُدھر کرنے کا واحد اختیار رکھتے ہوئے بھی اسلام آباد اور جی ایچ کیو کو ہر روز صبح اٹھ کر یقین دلائے کہ میں تو آپ کا ہی بندہ ہوں۔ عمران خان کی سیم پیج والی حکومت میں پرویز خٹک وزیر دفاع تھے۔ ان سے پتا نہیں کیا غلطی ہوئی کہ سیم پیج والی کتاب ہی پھاڑ کر پھینک دی گئی۔ اب یہ ذمہ داری خواجہ آصف کی ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ آتی جاتی حکومتوں کے خدوخال پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ خواجہ آصف کو وزارتِ دفاع دے کر کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ لیکن کم از کم اس کھڈے سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے شکایت ہے سوائے خواجہ آصف کے۔ جہاں سے کسی کو کچھ نہیں ملتا وہ وہاں سے بھی کچھ نہ کچھ لے کر اٹھے ہیں۔ خواجہ میرے خواجہ، دل میں سما جا۔
خواجہ آصف کو ایک دفعہ پہلے بھی وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ تب وزارتِ دفاع، وزیراعظم نواز شریف نے پتہ نہیں کس امید میں اپنے پاس رکھی ہوئی تھی۔
بلوچستان کے مسنگ پرسنز کا کیس عدالت میں چل رہا تھا جب بڑے جج صاحب کے سامنے وردی والے بھائیوں نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کیا تو جج صاحب نے کہا وزیرِ دفاع پیش ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوازشریف کو عدالت میں پیش ہونا اپنے منصب سے گری ہوئی حرکت لگتی تھی۔ انھوں نے راتوں رات خواجہ آصف کو وزیرِ دفاع بنایا، وہ اگلے دن عدالت میں پیش ہوئے۔ جج نے دل کی بھڑاس نکالی۔ خواجہ آصف نے خندہ پیشانی سے سنی پھر کراچی پریس کلب کے باہر لگے مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے احتجاجی کیمپ پہنچے اور انھیں پیش کش کی کہ ان کی کوئٹہ واپسی کے لیے ٹرین کا کرایہ خود دینے کو تیار ہیں۔
وزارتِ دفاع کی جانب سے اتنی فراخ دلانہ پیش کش نہ پہلے ہوئی تھی نہ اس کے بعد۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، خواجہ آصف ایک جہاندیدہ اور وفادار سیاسی کارکن ہیں۔ ان کے والد مرحوم نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا ساتھ دیا تھا، اس پر وہ بذاتِ خود معافی مانگ چکے ہیں۔ میں نے اپنے بڑوں کے کیے پر کم ہی کسی عوامی شخص کو معافی مانگتے سنا ہے۔ اب بھی معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بیانات بدل لیتے ہیں۔ امریکہ افعانستان سے بھاگا تو انھوں نے ’فتحِ مبین‘ کا نعرہ لگایا۔ اب انھی فاتحین کو پاکستان کا جانی دشمن مانتے ہیں اور یاد کراتے ہیں کہ افعانستان، پاکستان کو تسلیم کرنے والا آخری ملک تھا۔ تو آپ نے خواجہ آصف کی سُبکی کا مزہ لینا ہے تو لے لیں لیکن اگر یہی سوال فیلڈ مارشل آپ کے ماتحت ہیں یا آپ ان کے، پھر پوچھا گیا اور انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں فرما دیا کہ ’جا کے فیلڈ مارشل نوں پچھ لو‘۔ اس کے بعد مہدی حسن سمیت جس کی ہمت ہے وہ جا کر پوچھ لے۔
