کیا یوتھیے جج اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگوانے میں کامیاب ہوں گے؟

سپریم کورٹ میں گروپنگ اور تقسیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کی ممکنہ حکومتی کوشش کے سبب عدلیہ میں ایک اور بحران جنم لینے لگا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے مجوزہ حکومتی حکمت عملی کی مخالفت میں صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ دیا ہے جس میں ایسی کسی بھی حکومتی منصوبہ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ہی چیف جسٹس تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین صوبوں کی ہائیکورٹس سے ایک ایک جج کو ٹرانسفر کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے ،اس کا نوٹیفکیشن جلد جاری ہونے کا امکان ہے جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد10سے بڑھ کر 13ہوجائے گی۔اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تین صوبوں کی ہائیکورٹس سے ایک ایک جج اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کرنے کاحتمی فیصلہ ہوا،اجلاس میں اعلیٰ عدالتی شخصیات اور وزرا نے شرکت کی ۔ججز کی ٹرانسفر کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم سے مشاورت کا عمل کرلیا گیا جبکہ سندھ ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایک جج کو ٹرانسفر کرنے کیلئے خط و کتابت حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا جائے گا جو بطور سینئر جج فرائض انجام دیں گے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کے سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ مقرر کردیا جائے گا۔سندھ ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ججز نام بھی جلد فائنل ہوجائیں گے ۔صدر پاکستان آئین کے آرٹیکل 200کے تحت تین صوبائی ہائی کورٹس سے ایک ایک جج کے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفرکا حکم جاری کریں گے جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جلد جاری ہونے کا امکان ہے ۔

تاہم اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور ججز نے ایسی کسی بھی حکومتی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے تحفظات پر مبنی خط لکھ ڈالا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے 8ججز کی جانب سے شکووں اور شکایات پر مبنی خط چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ ، لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو بھی بھجوایا گیا ہے جبکہ اس خط کی ایک کاپی صدر آصف علی زرداری کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے8 ججز کی جانب سے بھجوائے جانے والے خط پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے دستخط تو موجود ہیں جبکہ خط پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے نام تو لکھے گئے ہیں تاہم ان کے دستخط موجود نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج چیف جسٹس بنانے کیلئے نہ لایا جائے بلکہ ہائی کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے ہی کسی کو چیف جسٹس بنایا جائے ۔ خط میں لکھا ہے کہ میڈیا میں دوسری ہائی کورٹس سے جج اسلام آباد ہائی کورٹ لانے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں،بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے ایک جج کو ٹرانسفرکیا جانا ہے ،ٹرانسفر کئے گئے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر زیرغور لایا جائے گا،سندھ ہائی کورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کی تجویز زیر غور ہونے کی اطلاعات ہیں، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کیلئے اس کی وجوہات دینا اور بامعنی مشاورت ضروری ہے جبکہ خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کسی دوسری ہائیکورٹ سے کسی جج کی ٹرانسفر سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری ججز کی سنیارٹی کیسے تبدیل ہو سکتی ہے ؟، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ججز کے ٹرانسفر کے طریقہ کار کو بھی خط میں ڈسکس کیا گیا ہے جس کے مطابق ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کے تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے ،مگر یہ صدر مملکت کی چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹ کے ججز سے مشاورت کے بعد ممکن ہے ۔خط میں کہاگیاکہ لاہور ہائیکورٹ سے جج اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ آئین کے مطابق چیف جسٹس نہیں بن سکتا،کیونکہ جج کا حلف اُس ہائیکورٹ کیلئے ہوتا ہے جس میں وہ کام شروع کریگا،ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں کام شروع کرنے سے پہلے نیا حلف اٹھانا پڑے گا،اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے ٹرانسفر ہونے والے جج کی سنیارٹی اُس نئے حلف کے مطابق طے کی جائے گی،سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سنیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے  کیا جائے گا،لاہور ہائیکورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا کیونکہ آئین کے مطابق ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اُسی ہائیکورٹ کے تین سینئر ججز میں سے تعینات کیا جائے گا،کسی اور ہائیکورٹ سے سنیارٹی میں نچلے درجے کے جج کو دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر کے چیف جسٹس کیلئے زیرغور لانا آئین کے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین صوبائی ہائی کورٹس سے ججز ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج بنایا جانا متوقع ہے اس لیے عدالتی بیوروکریسی میں مبینہ طور پر موجودہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی ترقی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے ایک جج لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کیے جانے کا امکان ہے، وہ 8 جون 2015 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر کیے گئے تھے۔تبادلے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کے سپریم کورٹ میں تعینات ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج بن جائیں گے اور انھیں ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کا امکان ہے۔

Back to top button