بھارتی صحافیوں کو غداری کے الزامات سے تحفظ مل گیا

جہاں ایک طرف پاکستان میں صحافیوں کو آئے روز ریاست اور حکومت کی جانب سے غداری کے الزامات کا سامنا ہے تو دوسری جانب بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ہر صحافی کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں سینئر صحافی حامد میر کی جانب سے ایک مظاہرے میں صحافیوں پر تشدد کی مذمت تقریر کے بعد انکے خلاف حکومتی اور ریاستی عناصر کے ایماء پر عدالتوں اور تھانوں میں غداری کے مقدمات درج کرنے کی درخواست دی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ صحافیوں کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ونود دُوا کے خلاف ملک سے غداری کے الزامات کے تحت دائر معاملے کو خارج کرتے ہوئے اپنے تاریخی فیصلے میں آبزرویشن دی ہے کہ 1962 میں ‘کیدار ناتھ سنگھ’ کیس کے تحت ہر صحافی کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔ عدالت نے ونود دوا کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں میڈیا کے خلاف یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں من پسند خبریں نشر کروانے کی خاطر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ان پر جھوٹے مقدمات بنا دیتی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب حکومت پر محض تنقید کی وجہ سے ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر لیا جاتا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سچی اور ایماندارانہ تنقید ملک کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔
یاد رہے کہ ریاست ہماچل پردیش سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ونود دوا کے یو ٹیوب پروگرام میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔
ونود دوا کے خلاف چھ مئی 2020 کو شملہ کے کمار سین پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرایا گیا تھا جسے ونود نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔صحافی نے عدالت سے گرفتار نہ کیے جانے کی استدعا کی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ونود دوا کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ دس سال کا تجربہ رکھنے والے کسی بھی صحافی کو اس وقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک کہ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں قائم کمیٹی اس کی منظوری نہ دے دے۔ عدالت نے کہا کہ ایسا فیصلہ مقننہ کے دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہوگا۔ البتہ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 20 جولائی کو ونود دوا کے خلاف انتظامیہ کو تاحکم ثانی کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ہماچل پردیش کی پولیس کی جانب سے پوچھے گئے کسی بھی ضمنی سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ونود دوا کے وکیل وکاس سنگھ کے مطابق ان کے موکل کے خلاف جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کے تحت انہیں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ ان کے بقول ونود نے ایک صحافی کی حیثیت سے کسی مذہب، نسل، زبان، علاقے، گروہ یا فرقے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ یاد رہے کہ ونود دوا اپنے یو ٹیوب پروگرام ‘ونود دوا شو’ میں مودی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں جب کہ حکمراں جماعت کے رہنما یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ عوام مخالف پروگرام کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک دوسرے کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ملک سے غداری کی دفعہ کی حدود کی تشریح کی جائے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی یہ تشریح ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آندھرا پردیش کے دو تیلگو نیوز چینلز کے خلاف درج غداری کے معاملے میں انتظامیہ کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت اظہارِ رائے کی آزادی اور میڈیا کے حوالے سے ملک سے غداری کی دفعہ کا جائزہ لے گی۔