الیکشن مہم میں کالے دھن کے استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

کالے دھن نے ہمیشہ انتخابات پر متنازع چھاپ لگائی ہے، لیکن کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے انتخابی سرگرمیاں بہترین ثابت ہوتی ہیں، کالے دھن کو انتخابی عمل کے دوران استعمال میں لایا جاتا ہے، جس سے کمزور جمہوری عمل کی ساکھ اور شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس سیل اس رقم کی آمد کو روکنے کیلئے محدود قانونی راستے تلاش کر سکتا ہے جوکہ انتخابی نظام کی سالمیت کے حوالے سے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے، ہمارے ملک میں انتخابات کی معاشیات پر منظم تحقیق یا مطالعہ نہ ہونا قابلِ فکر ہے، عدم موجودگی کی وجہ سے اس معاملے پر ہونے والا صحافتی کام صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں پر مشتمل ہے۔کچھ شواہد اس تصور کی تائید کرتے ہیں کہ ایسی دولت، انتخابی نظام میں نامعلوم ذرائع سے شامل ہوتی ہے، انتخابات کی معاشیات کو سمجھنے کے خواہشمند افراد کو غیر رسمی سروے اور بریفنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے جبکہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ انٹرویوز بھی لیے جاتے ہیں تاکہ حقائق کا ادراک ہوسکے۔انتخابی مہم میں پرنٹرز، پینٹرز، ایڈورٹائزرز، کیٹررز، ڈیکوریٹرز، ٹرانسپورٹرز، پرائیویٹ جیٹ آپریٹرز، سوشل میڈیا واریئرز، چینل آپریٹرز، کموڈٹی ڈیلرز، تنخواہ دار ورکرز وغیرہ سے خدمات حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔قانونی طور پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑنے والا امیدوار ایک کروڑ روپے تک کی رقم انتخابی مہم میں خرچ کر سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار کے لیے 40 لاکھ روپے تک کی حد مقرر کی گئی ہے۔ تاہم الیکشن ایکٹ کا قانون مدمقابل آنے والے امیدواروں کو ان کے لیے دوسروں کی جانب سے کیے گئے تمام اخراجات کا حساب دینے کی ذمہ داری سے بری کرتا ہے۔تصور کریں کہ قومی اسمبلی کی تمام 336 نشستوں کے امیدوار اخراجات کی حد کی پابندی کرتے ہیں اور فی حلقہ صرف تین امیدواروں ہوتے ہیں تو 1008 امیدواروں (336 کے تین گنا امیدوار) سے ایک کروڑ روپے کو ضرب دینے سے 10 ارب روپے کی حیران کُن رقم سامنے آتی ہے۔ اس وقت کل 22 ہزار 751 امیدوار قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں مقاملے کیلئے میدان میں اتریں گے۔اسلام آباد میں مقیم ڈیولپمنٹ پالیسی کے ماہر زبیر فیصل عباسی نے کہا کہ موجودہ قانونی ضابطوں کے تحت، فنڈنگ کے مختلف اور متنوع ذرائع کو درست طریقے سے شناخت کرنا انتہائی مشکل ہے، جب تک کہ اندر سے کوئی اس پر رپورٹنگ شروع نہ کرے، الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس سیل تمام امیدواروں سے مالی ریکارڈ اکٹھا کرتا ہے، اصل چیلنج اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہر کوئی اس کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیتا اور شاید ہر جواب کی الیکشن کمیشن کی جانب سے مکمل جانچ نہیں کی جاتی۔ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم کے لیے رقوم کی منتقلی میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ’’سن شائن رولز‘‘ کی ضرورت ہے، امیدواروں کی طرف سے جو رقم الیکشن کمیشن کو بتائی جاتی ہے اکثر انتخابی مہم کے دوران اس سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں، یہ ووٹرز کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ کون کس کو اور کس مقصد کیلئے فنڈز فراہم کر رہا ہے۔

Back to top button