بندیال نے اتحادی حکومت سے اپنی بے عزتی کا بدلہ کیسے لیا؟
جاتے جاتے چیف جسٹس بندیال نے سابقہ اتحادی حکومت کی طرف سے مسلسل بے عزتی کا بدلہ لیتے ہوئے عمران خان کی درخواست ملحوظ خاطر قرار دیتے ہوئے نیب قانون میں لائی گئی 10 ترامیم میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دے کر ان تمام سیاستدانوں کو پھر سے احتساب عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے جنہوں نے ان ترامیم سے فائدہ اٹھایا تھا، گوکہ اس کا نقصان عمران خان اور ان کی پارٹی کے کچھ رہنمائوں کو بھی ہوگا، لیکن احتساب کے جھاڑو کی لپیٹ میں تقریباً سارے سابق وزرائے اعظم اور چوٹی کے سیاستدان آگئے ہیں۔
سینئر صحافی امتیاز عالم کے تازہ سیاسی تجزیے کے مطابق جسٹس بندیال نے پچاس کروڑ روپے تک کی کرپشن کا نیب کے دائرہ اختیار سے اخراج سے لے کر مقدمات کی نیب سے منتقلی یا خاتمے اور ان ترامیم کے ماضی سے اطلاق تک سبھی ’’کرپشن کی سہولتیں‘‘ بیک جنبش قلم منسوخ کردی ہیں۔ اس طرح جانے والے چیف جسٹس کو اتحادی سیاسی جماعتوں نے جتنا زِچ کیا گیا تھا۔ وہ انہوں نے مع سود لوٹادیا۔امتیاز عالم کے بقول چیف جسٹس بندیال کے فیصلے سے نیب کی رپورٹ کے مطابق مبینہ کرپشن کے 598 مقدمات ایک ہفتے کے اندر احتساب عدالتوں میں بحال ہوجائیں گے۔ 35 مقدمات ایسے ہیں جن میں چوٹی کے سیاستدان مطلوب ہیں جوپھر سے چل پڑیں گے ۔ اسی طرح 755 مقدمات کی انکوائریاں اور 292مقدمات کی تفتیش بحال ہوجائے گی۔ ذرا سوچئے کیا منظر ہوگا جب انتخابی مہم زوروں پر چل رہی ہوگی اور بڑے بڑے جغادری سیاستدان ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہونگے یا پھر احتساب عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہوں گے۔ اس طرح کے سیاست دشمن اور جمہوریت کش مناظر ہم پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر جنرل مشرف کی آمریت تک بار بار دیکھ چکے ہیں۔امتیاز عالم کا مزید کہنا ہے کہ جس مساوی کھیل کے میدان کا تقاضا پہلے نواز لیگ کرتی ر ہی تھی اور اب پیپلزپارٹی کررہی ہے، وہ احتساب کے میدان میں تو پورا ہوچکا ہے، گوکہ تمام مقدس گائیں اب بھی ناقابل مواخذہ رہیں گی۔ ایسے میں جسٹس منصور علی شاہ کا عدالتی سرعت پسندی سے اجتناب کرنے، منتخب مقننہ کے قانون سازی کے حق پر ’’غیر منتخب ججوں‘‘ کے شب خون کی مذمت اور تکونی اقتدار میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا اختلافی نوٹ17 ستمبر کے بعد کیا رنگ دکھا پائے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
امتیاز عالم کے بقول جنرل مشرف کی شکست سے پیدا ہونے والے خلا کو وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی سے بحال کردہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدالتی تحرک سے پُر کرنے کی کوشش کی اس سے انتظامیہ اور مقننہ کے مقابلے میں عدلیہ کی سپرمیسی قائم ہوئی، جس نے چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس گلزار اور چیف جسٹس عطا بندیال تک چیف جسٹس کے مطلق اختیار کو آرمی چیف کی طاقت سے زیادہ نہیں تو ہم پلہ ضرور بنادیا۔ ٹرائی کاٹومی آف پاور کے نئے نظریہ ضرورت کے تحت آئین کو اسکی جنم بھومی پارلیمنٹ سے ارفع قرار دے کر عدلیہ کو یوں سپریم بنادیا گیا کہ آئین وہ ہے جس کی تشریح عدلیہ کرے، چاہے تشریح کرتے ہوئے آئین کی کسی شق کو دوبارہ لکھ ڈالے۔ امتاز عالم کے بقول ماضی میں چیف جسٹس اور آرمی چیف کی رفاقت نے یوسف رضا گیلانی، صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم نواز شریف کی حکومتوں کو نہ صرف چلتا کیا ، بلکہ 2013 اور 2018 کے انتخابات کی سیاسی انجینئرنگ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پھر 2018 میں ہائبرڈ رجیم لایا گیا جس کے سہولت کار آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس حضرات بنے۔ اس سہولت کاری کا منظر ہم چیف جسٹس بندیال کی اور ہم خیال ججوں کے متعدد متضاد فیصلوں کی صورت دیکھ چکے۔ افتخار چوہدری سے شروع ہوئی ریلے ریس بندیال صاحب کی ریٹائرمنٹ پہ ختم ہوگی کہ نہیں؟ دیکھتے ہیں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب کی اجارہ داری سے دستبردار ہوکر سپریم کورٹ کو بطور ادارہ اجتماعی منشا کا مظہر بناتے ہیں کہ نہیں۔ عدلیہ کو سیاست سے دور رکھنے کی اصولی خواہش کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کس حد تک ان معاملات میں خود کو اور اپنے ادارے کو سیاسی لغزشوں سے بچا پائیں گے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔