سیاسی جماعتیں عوام سے آخر جھوٹےوعدے کیوں کرتی ہیں؟

آٹھ فروری کے پارلیمانی انتخابات سے قبل پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کے چیدہ چیدہ نکات کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو وعدے یا دعوے کیے جا رہے ہیں، کیا ان پر عملدرآمد ممکن بھی ہو سکتا ہے؟ اور آخر سیاسی جماعتیں عوام سے جھوٹے وعدے کیوں کرتی ہیں؟

خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کے 10 اہم نکات، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے 25 جبکہ جماعت اسلامی نے 58 سے زائد صفحات پر مشتمل اپنا پارٹی منشور پیش کیا ہے۔ کئی حلقے ان منشوروں کی اہمیت، ان کے اثر اور ان کی عملیت پسندی پر بحث کر رہے ہیں۔

پی پی پی نے تنخواہوں کو ڈبل کرنے، گرین انرجی کے لیے کام کرنے، تین سو یونٹس مفت بجلی فراہم کرنے اور ہر بچے کے لیے تعلیم کی رسائی کو ممکن بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مفت نظام صحت کے قیام، 30 لاکھ گھروں کی تعمیر، مزدور، کسان اور نوجوان کے لیے بے نظیر کارڈ اور بھوک مٹاؤ پروگرام کا وعدہ کیا گیا ہے۔

 ایم کیو ایم کے 25 نکاتی پروگرام میں ضلعی خود مختاری، زرمبادلہ کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے، انکم جنریشن پروگرام، تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی کا نفاذ، غذائی قلت کے خلاف جدوجہد، نئے شہروں کا قیام، کراچی میں سرمایہ کاری کا فروغ، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور کمیونٹی پولیسنگ جیسے اقدامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق نون لیگ کے منشور میں معیشت کی بحالی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ایکسپورٹ کو بڑھانا، نجکاری کو ترجیحی بنیادوں پہ تکمیل تک پہنچانا، خسارے کو کم کرنا اور اس کے علاوہ تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، سڑکوں کا نیٹ ورک اور آئین کی بالادستی سمیت کئی اہم نکات شامل ہیں۔‘‘

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کے مطابق جماعت اسلامی کے منشور میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا، سودی نظام کا خاتمہ، خواتین کے لیے تعلیم وروزگار اور دیگر مواقع، کرپشن کا اور اشرافیہ کلچر کا خاتمہ، عام آدمی کے مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔‘‘

خیال رہے کی سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو بہت اہم گردانتی ہیں اور اس کو پالیسی سازی کے لیے رہنما دستاویز قرار دیتی ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں منشور کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ سیاسی جماعت کے کارکنان تو دور کی بات سیاسی جماعت کے کئی اراکین پارلیمنٹ بھی اپنے منشور کو نہیں پڑھتے۔، ”عموما سیاسی جماعتوں میں کچھ دانشور لوگ ہوتے ہیں جو بڑی جاں فشانی سے منشور لکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی پڑھتا نہیں ہے۔‘‘مبصرین کے مطابق سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، خصوصا معاشی پالیسیوں میں، ”نجکاری، ڈی ریگولیشن اور آزاد تجارت کی سارے بات کرتے ہیں۔‘‘

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ معاشی معاملات میں تمام سیاسی پالیسی کا نقطہ نظر ایک ہوتا ہے اور یہی وہ پالیسی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ عوام کو متاثر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ اس کی کچھ حصوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔‘‘ تاہم پیپلز پارٹی اپنے منشور میں اقلیت یا دوسرے گروپوں کو تھوڑی سی زیادہ ترجیح دیتی ہے، ”اس کے علاوہ جنسی امتیاز اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے بھی نون لیگ کے مقابلے میں ان کی پوزیشن تھوڑی زیادہ واضح ہوتی ہے۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموما بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول نے 300 یونٹ فری بجلی دینے کی بات کی ہے اور اسی طرح کی باتیں مریم نواز اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرف سے بھی کی گئی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر ان پر عمل درآمد اسان نہیں ہے، ”نون لیگ چاہتی ہے کہ نجکاری پر فوری طور پر عمل کیا جائے، جس کو ٹریڈ یونینز کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالکل اسی طرح یہ مالی خسارہ بھی کم نہیں کر سکتے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور آئی پی پی کی ادائیگی تمام حکومتوں کے لیے درد سر ہیں اور یہ مستقبل کی حکومت کے لیے بھی درد سر رہیں گے۔‘‘ بالکل اسی طرح ایکسپورٹ کو بڑھانا ممکن نہیں ہے، ’’شرح سود میں اضافہ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور درآمدات کی لا محدودیت آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے۔ ان تمام اقدامات سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو ایسے میں ایکسپورٹ کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ منشور کیونکہ پڑھا ہی نہیں جاتا تو اس کا اثر کیسے ممکن ہے، ” جو چیز ووٹر پر اثر انداز ہوتی ہے وہ غالبا بیانیہ ہے یا کچھ نعرے ہیں جیسا پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا، مکان اور عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ یا ان کا یہ بیانیہ کہ دونوں سیاسی جماعتیں چور ہیں لیکن باقی معاملات میں منشور کا ووٹر پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘

Back to top button