عدالتی فیصلے پر عمران اندر اور نواز شریف سرخرو کیسے ہوئے؟
پاکستان میں سال 2023 بھی عدالتی ہلچل کا سال رہا، سیاسی افرا تفریح کے بعد گرفتاریاں، فوجی عدالتیں، سپریم کورٹ اصلاحات بل، توشہ خانہ اور نیب ترامیم سے لے کر عام انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان میں عدالتوں کا اہم کردار رہا۔عدالتوں سے نیب ترامیم، توشہ خانہ،عام انتخاباتاور ملٹری کورٹس سمیت کئی اہم فیصلے آئے۔کچھ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری ہوئی، جبکہ کچھ عدالتوں سے بری ہوئے۔
رواں برس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار لائیو سماعت بھی کی گئی جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے فوری بعد فل کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کیں اور اس عدالتی کارروائی کو ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا گیا۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی تحقیقات سے متعلق ریفرنس کی سماعت کو بھی ٹی وی پہ براہ راست دکھایا گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل سے بطور جج برطرفی کے خلاف درخواست کی بھی لائیو کوریج نشر کی گئی۔عام انتخابات سے متعلق ریٹرنگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران کی تعیناتی پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم اور الیکشن کمیشن کو الیکشن کا شیڈیول جاری کرنے کی کارروائی بھی براہ راست نشر کی گئی۔
17 ستمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دا گیا۔10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ 12 اپریل کو سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف چار درخواستیں دائر کی گئیں۔سپریم کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے 11 اکتوبر کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا۔ماسٹر آف رول کا تصور ختم کرتے ہوئے بینچ کی تشکیل، مقدمات موخر کرنے اور از خود نوٹس کا صرف چیف جسٹس کا اختیار تین رکنی ججز کمیٹی کو منتقل کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 90 روز میں عام انتخابات کرانے کے کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے دو نومبر کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا اور ملک میں قومی انتخابات کے لیے آٹھ فروری 2024 کی تاریخ طے پائی۔الیکشن کمیشن نے صدر عارف علوی سے مشاورت کے بعد آٹھ فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کرانے کا نوٹیفکیشن جمع کرایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے انتخابات کی تاریخ نہ دینے سے پورا ملک بے چینی کا شکار ہوا۔’میں زندہ رہا تو انشا اللہ آٹھ فروری کو ہر صورت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔‘ عدالت نے 90 دن میں الیکشن کرانے کی درخواستیں نمٹا دیں۔بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرننگ افسران کے معاملے پر سٹے آرڈر جاری کیا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔جس کے بعد 15 دسمبر کو سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول بھی جاری کیا۔
نیب ترمیمی ایکٹ کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ 15 ستمبر کو درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔عدالت نے کہا نیب ختم کیے گئے ریفرنسز سات دن کے اندر احتساب عدالتوں کو واپس بھجوائے۔ دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دے دی گئیں۔ 50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق بھی کالعدم قرار دی گئی۔جس کے نتیجے میں آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف، اسحاق ڈار، مراد علی شاہ سمیت دیگر سیاستدانوں کے وہ تمام مقدمات احتساب عدالتوں میں بحال ہو گئے جو نیب ترمیمی ایکٹ کے باعث نیب کو واپس کر دیے گئے تھے۔جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور اختلافی نوٹ لکھا کہ ’پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے تو پھر ختم بھی کر سکتی ہے۔ سوال غلط ترمیم کا نہیں، منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔’ججز اور فوجی افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کے بعد نیب قانون کے تحت بھی ایکشن ہونا چاہئے۔ عدلیہ قانون سازی کا اس وقت جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔فیصلے میں کہا کہ عام شہریوں کے تمام کیسز ملٹری کورٹس سے سول عدالتوں میں بھیجے جائیں۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت کی ایما پر کارکنوں کی جانب سے کی گئی نو مئی 2023 کی مبینہ دہشت گردی اور فوجی و سول تنصیبات کو جلانے کے مقدمات میں ملوث ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے 13 دسمبر کو فوجی عدالتوں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔
پانچ اگست کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔سزا کے فیصلے کے بعد عمران خان کو ان کی رہاش گاہ زمان پارک لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا گیا۔بعد ازاں توشہ خانہ کیس کا فیصلہ ہائی کورٹ چیلنج کر کے ضمانت کی درخواستیں بھی دائر کر دی۔جس پر 29 اگست اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بنچ نے توشہ خانہ کیس میں محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے دی گئی تین سال کی سزا معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا۔لیکن عمران خان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کے مقدمے پر زیر حراست رہے، بعدازاں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا جہاں وہ سائفر جیل ٹرائل سمیت القادر کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اکیس اکتوبر کو پاکستان پہنچے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمات جس میں وہ مفرور تھے عدالت کے سامنے سرینڈر کیا اور ضمانت کی اپیلیں بحال کروائیں۔29 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے اور نیب کی جانب سے دلائل پر معذرت کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو بری کر دیا۔جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف نیب کی جانب سے اپیل واپس لینے پر خارج کر دی گئی۔12 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بری کیا۔