پہلی مرتبہ سنیارٹی کی بنیاد پر فوجی تقرریوں کا فیصلہ

یہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی حکومت سنیارٹی کی بنیاد پر پر آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ماضی میں شاذونادر ہی سنیارٹی کی بنیاد پر سینئر موسٹ جرنیل کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر ان دو اہم ترین فوجی عہدوں پر تقرریوں کا فیصلہ کسی تنازعے سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے، یاد رہے کہ اس وقت کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر سینئر ترین جرنیل ہیں جبکہ سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جس بھی وزیراعظم نے جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ نظر انداز کرتے ہوئے جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنایا، اسے بعد میں اپنے فیصلے پر پچھتانا پڑا، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا نواز شریف۔یوں تو کسی بھی فوج کی کمان کے لئے تعیناتی معمول کے طریقہ کے مطابق عمل میں آتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک حتیٰ کی پاکستان کے سب سے بڑے مدمقابل بھارت میں بھی اگلا آرمی چیف کون ہوگا، کے سوال پر قبل از وقت مباحث دیکھنے میں نہیں آتے، ہر ملک کی فوج ایک منظم ادارہ ہوتا ہے جس میں سنیارٹی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کے تجربہ و اہلیت کا مکمل ریکارڈ فراہم ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی افسر فوج کی کمان کا اہل ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں چونکہ سیاسی قیادت یہ اہم تقرری کرنے کی مجاز ہوتی ہے، اس لئے یہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ سینئر ترین جرنیلوں کو نظرانداز کر کے کسی جونئر لیفٹیننٹ جنرل کو فوج کی کمان سونپ دی جائے۔

پاکستان میں یہ صورت حال متعدد بار دیکھنے میں آئی ہے جب وزیر اعظم نے اپنی صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی جونئیر جنرل کو ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا، اس عہدہ پر فائز ہونے والے جنرل سے سینئر جنرل سپر سیڈ ہونے کے بعد اسی روز رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ اس طریقہ سے فوج کے ڈسپلن اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عکاسی ہوتی ہے۔ عسکری حلقوں میں کبھی وزیر اعظم کی جانب سے کسی جونیئر کو آرمی چیف بنانے کے بعد کوئی چپقلش یا بحث دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف کو دورہ سری لنکا کے دوران ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے تب کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن جنرل مشرف نے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ساتھی جرنیلوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو آرمی چیف کا طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلوا دی جسے بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔

حالیہ سیاسی تاریخ میں پاکستانی وزرائے اعظم کی طرف سے اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لئے سینئر جنرلز کو نظرانداز کر کے کسی جونئیر کو لگانے کے تجربے کامیاب تصور نہیں کیے جا سکتے، اس کی سب سے بھیانک مثال ذوالفقار علی بھٹو کا جنرل ضیا الحق کو سنیارٹی کا اصول نظر انداز کرتے ہوئے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ تھا۔جنرل ضیا جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں 11ویں نمبر پر تھا لیکن آرمی چیف بننے کے بعد اس نے نہ صرف بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ ان کی پھانسی کو بھی یقینی بنایا۔ یہ اور بات کے تاریخ نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا اور انہیں شہید کا رتبہ دلایا، جنرل ضیا الحق سب سے طویل مدت تک حکمرانی کرنے والا آرمی چیف رہا جو 11 برس تک پاکستان کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کے بعد اگست 1988 میں ایک فضائی حادثہ میں جہنم رسید ہوا۔ اپنی ہلاکت تک ضیا صدر اور آرمی چیف کے عہدوں سے چمٹا رہا۔

تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے مختلف ادوار میں پانچ آرمی چیفس کا تقرر کیا۔ ان میں جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ شامل ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کی کشمکش میں ان کی ہر آرمی چیف سے چپقلش رہی۔ انہوں نے پرویز مشرف کو متعدد جونئیرز پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنایا تھا لیکن وہی ان کی حکومت کے خاتمہ کے علاوہ نواز شریف کی سیاست سے نا اہلی اور جلاوطنی کا سبب بھی بنے۔

جلاوطنی سے واپسی کے بعد جب انہیں 2013 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا تو بھی انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کے لئے کسی خاص طریقہ کا تعین کرنے یا سنیارٹی کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرنے کی بجائے بالترتیب جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو جونیئر ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر کیا۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ڈان لیکس کے سوال پر شدید اختلاف پیدا ہوا تاہم ان کی حکومت محفوظ رہی البتہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے دور میں انہیں سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں نا اہل قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا۔ نواز شریف اس کی ذمہ داری جنرل باجوہ اور فوج پر عائد کرتے رہے ہیں۔ اب شہباز شریف کے ذریعے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو ایک بار پھر اسی ’پل صراط‘ کا سامنا ہے لیکن حالات کے مطالعہ سے یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس سلسلہ میں پارٹی یا شریف برادران نے کوئی سبق سیکھا ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار بھی یہ اہم فیصلہ کرتے ہوئے وہ کسی ’وفادار‘ کی تلاش میں ہی رہیں گے۔

سیاسی مقصد کے لئے کسی جونیئر کو ترقی دے کر سینئر جنرلز کو نظرانداز کرنے کی روایت صرف سویلین حکمرانوں ہی نے قائم نہیں کی بلکہ فوجی عہدے کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے والے سب فوجی سربراہوں نے طویل عرصہ تک آرمی چیف کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھا۔ یہ سب جنرل جانتے تھے کہ انہیں عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ فوج کو اپنی کمان رکھتے ہوئے ہی ملک کے اقتدار پر قابض رہ سکتے ہیں۔

ان میں ضیا الحق اور پرویز مشرف کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ضیا سے موت نے یہ اعزاز چھینا اور پرویز مشرف کو تبدیل شدہ سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ کے نتیجہ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فوج کی کمان سونپنا پڑی تو ان کے لئے ملک کی صدارت پر فائز رہنا بھی ناممکن ہو گیا، یہ دونوں بالترتیب 12 اور 9 سال تک فوج کے آرمی چیف رہے۔ اس طریقہ سے فوج میں سنیارٹی کا اصول بھی متاثر ہوتا ہے اور اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے کی لگن موجودہ نہ رہنے کے باعث افسروں کے جوش و ولولہ پر اثر بھی پڑتا ہے۔ 1973 کے آئین میں مسلح افواج کے سربراہان کے لئے تین سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ لیکن فوج اور سیاست کے تال میل کی وجہ سے اس اصول پر شاذ و نادر ہی عمل ہوا ہے۔

نومبر 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دی تھی تو سپریم کورٹ نے قانونی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے اس حکم کو معطل کر دیا تھا اور جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے لئے قومی اسمبلی کو خصوصی قانون سازی کرنا پڑی تھی سپریم کورٹ کے اس حکم سے جانا جاسکتا ہے کہ اس سے پہلے اقتدار پر قابض فوجی سربراہان کسی قانونی جواز و بنیاد کے بغیر خود ہی آرمی چیف کے طور پر اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کرتے رہے تھے۔

Back to top button