کیا پیپلزپارٹی کی بنیاد پیرس میں رکھی گئی تھی؟

بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ پیپلپزارٹی کی بنیاد 1966 میں پیرس میں رکھی گئی تھی، پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے پرانی جماعتوں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس جماعت کی تشکیل کے حوالے سے اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں رکھی گئی تھی۔حکومت پاکستان نے 1957 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے جو وفد بھیجا تھا اس میں اس وقت کراچی کے ایک نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ ستمبر 1957 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے امن عالم اور جارحیت کے موضوع پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی اجلاس کے دوران تقریر کی تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ 29 سالہ نوجوان صرف دس سال بعد ایسا مقام حاصل کر لے گا کہ اس کا نام آنے والی نصف صدی کے بعد بھی پاکستانی سیاست میں گونجتا رہے گا۔مارچ 1958 میں جینیوا میں ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع سمندری قوانین تھا۔ بھٹو نے اس کانفرنس کے دوران پانچ تقریریں کیں اور شاید یہی وہ تقاریر تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے جنرل ایوب خان کو متاثر کیا۔ جب اکتوبر 1958 میں جب اسکندر مرزا نے پاکستان میں پہلا مارشل لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کابینہ میں بطور وزیرِ تجارت شامل کر لیا۔ اس کے 20 دن بعد جب جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے اپنی نئی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں بھی بھٹو شامل تھے۔تقریباً پانچ سال بعد 23 جنوری 1963 کو سابق وزیراعظم پاکستان اور وزیرخارجہ محمد علی بوگرہ کی وفات کے بعد اگلے دن ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا۔20 نومبر 1965 کو وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وہ مشہور فقرہ ادا کیا جو آج تک دہرایا جاتا ہے، ’اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا۔۔۔ ضرورت پڑی تو ہم گھاس کھا کر گزارا کر لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔‘10 جنوری 1966 کو جب سویت یونین کی ثالثی سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو بھی اس موقعے پر پاکستانی وفد کا حصہ تھے۔اسی سال 12 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر جائے گا۔ اس سے قبل وہ نو فروری کو کہہ چکے تھے کہ معاہدہ تاشقند کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے اور کشمیر کی آزادی کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔معاہدہ تاشقند کے دوران پاکستان اور انڈیا نے آپس کے اختلافات کو پر امن طور پر حل کرنے کا اعلان کیا اس معاہدے کے چند ہفتے بعد 29 جنوری کو ایوب خان کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں اور کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی لیکن پھر 17 جون 1966 کو حکومت نے اعلان کیا کہ صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو خرابیِ صحت کی بنیاد پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ان اپنی وزارت سے بے ضابطہ استعفیٰ تھا جبکہ حکومت نے ان کی برخاستگی کا اعلان آٹھ جولائی کو کیا جس میں کہا گیا کہ بھٹو 31 اگست کو اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔پھر 22 جون کو بھٹو راولپنڈی کے کراچی کے لیے روانہ ہوئے لیکن انہوں نے یہ سفر بذریعہ ٹرین کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور، لاڑکانہ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے، راستے میں آنے والے شہروں میں عوام کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود رہی۔ شاید اسی استقبال کو دیکھتے ہوئے بھٹو نے سیاسی میدان میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں اگست 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو جب پیرس سے لندن پہنچے تو انہوں نے اولڈ کونوے ہال میں پاکستانی طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’تاثر یہی ہے کہ میری صحت اچھی نہیں ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری صحت جتنی بھی خراب ہو یہ انڈیا کے لیے کافی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے ’پرزن سیل ہولوگراف‘ یا جیل میں لکھے گئے نوٹس کی بنیاد پر وولپرٹ لکھتے ہیں کہ 1966 میں بھٹو بیروت سے پہلے جینیوا اور پیرس پہنچے جہاں ان کی ملاقات جلال الدین عبدالرحیم (جے اے رحیم) سے ہوئی۔سٹینلی وولپرٹ کے مطابق ’جے اے رحیم نے پپیلز پارٹی کا منشور اکتوبر 1966 میں تیار کر کے پرنٹ کر لیا تھا اور پھر پیرس سے بھٹو کو خط لکھ کر اس بارے میں آگاہ کیا۔‘فلپ جونز لکھتے ہیں کہ بھٹو چاہتے تھے جے اے رحیم فرانس میں پاکستان کے سفیر کا عہدہ سنبھال لیں لیکن جے اے رحیم اس پر راضی نہ تھے۔ 1975 میں جے اے رحیم کراچی میں بھٹو سے ملاقات کے لیے 70 کلفٹن میں ان کی رہائش گاہ پر موجود تھے، مگر ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد انہوں نے کہا ’میں لاڑکانہ کے مہاراجہ کا مزید انتظار نہیں کروں گا۔‘اس سے اگلے ہی دن بھٹو کے سکیورٹی گارڈز کے ایک گروپ نے جے اے رحیم کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں قید کر دیا گیا۔ بھٹو نے جے اے رحیم پر اپنی قوم کی بےعزتی کرنے کا الزام عائد کیا لیکن جلد ہی انہیں رہا کرتے ہوئے ان سے معافی مانگ لی۔فلپ جونز کے مطابق بھٹو کو پاکستان کے شہری علاقوں میں مضبوط حمایت حاصل تھی جن میں وکلا، دانشور اور طلبہ شامل تھے۔ یہ طبقہ 22 ستمبر اور 25 اکتوبر 1965 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھٹو کی تقریروں سے متاثر تھا۔یہ طبقہ بیرونی دباؤ کے شکار ایوب خان کے مقابلے میں بھٹو کو پاکستانی مفادات کے حقیقی محافظ کے طور پر دیکھتا تھا اور ان کی نظر میں وہ ایک ’عظیم قومی ہیرو‘ تھے۔اس بات کا ثبوت کابینہ سے نکلنے کے بعد راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ہونے والے ان کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت سے ملتا تھا۔

Back to top button