ضلع کرم میں ادویات کی قلت سے 200 افراد جاں بحق ہوئے : رپورٹ
اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی قلت کے باعث ضلع کرم میں صورت حال سنگین رخ اختیار کرگئی ہے، جب کہ سول سوسائٹی کی جانب سے ادویات کی قلت سے اب تک 128 بچوں سمیت 200 افراد کی اموات کا دعویٰ کیاگیا ہے۔
ضلع کرم میں راستوں کی بندش کو 84 روز ہو گئے ہیں، ضلع کرم میں راستوں کی بندش کے باعث ہر گزرتے دن صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔
راستوں کی بندش کےخلاف ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار میں پریس کلب کے باہر جب کہ سلطان اور گوساڑ میں احتجاجی دھرنےجاری ہیں جب کہ لوئر کرم کے علاقے بگن میں دکانوں اور گھروں کو نقصان پہنچنے کے خلاف احتجاجی دھرنا شروع کیاگیا ہے،مظاہرین نے واضح کر دیا کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہےگا۔
ضلع کرم میں پشاور پاراچنار مین شاہراہ پاک افغان سرحد سمیت آمد و رفت کےراستے ڈھائی ماہ سے زائد عرصےسے بند ہیں جس سے شہری بحرانی کیفیت اور اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہے۔
سماجی رہنما میر افضل خان کا کہنا ہےکہ راستوں کی بندش کے باعث اشیائے خورد و نوش اور روزمرہ اشیا ختم ہونےکی وجہ سے تمام بازار بند ہوگئے ہیں۔
مقامی رجسٹرڈ تنظیم سول سوسائٹی نے علاج و سہولیات نہ ملنے کےباعث 128 بچوں سمیت 200 افراد کی جاں بحق ہونےکی تصدیق کی ہے،جاں بحق افراد میں کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد زیادہ ہیں جو ویکسین نہ ملنے سے دم توڑگئے ہیں۔
سول سوسائٹی کےمطابق اسپتال میں سہولیات فراہم نہ کی گئی اور ادویات کا بندوبست نہ کیاگیا تو مزید انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کاکہنا ہےکہ آمد و رفت کے راستے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ اور جھڑپوں کےبعد سکیورٹی خدشات کے باعث بند کیےگئے ہیں اور مذاکراتی عمل کے ذریعے مسئلے کےحل کی کوشش کی جارہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کرم نے بتایاکہ فریقین کےدرمیان جرگے جاری ہے،حتمی فیصلہ ہونے تک راستے کھل جائیں گے۔
جرگہ رکن اور سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے بتایاکہ کوہاٹ میں ملتوی ہونے والا گرینڈ امن جرگہ ضلعی انتظامیہ نے کل 11 بجے طلب کیا ہےجس میں امن معاہدے پر دستخط کیےجائیں گے۔
گوادر کا ائیرپورٹ پاک چین دوستی کی نمایاں مثال ہے : وزیر اعظم
واضح رہےکہ 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی تھی جس کےنتیجے میں 8 خواتین اور 5 بچوں سمیت تقریبا 41 افراد شہید ہوئےتھے۔
اس واقعے کےبعد دونوں فریقین کے درمیان فائرنگ کا یہ سلسلہ جاری رہاجب کہ پشاور سے کرم ایجنسی کو ملانے والی ہائی وے کو ٹریفک کےلیے بند کر دیا گیا تھا۔
ضلع کرم میں کئی دن تک جاری مسلح تصادم کےنتیجے میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہوئےہیں جب کہ ابتدائی طور پر ادویات کی قلت سے 100 بچوں کی اموات کو مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا نے بےبنیاد اور من گھڑت قراردیا تھا۔